ایک مشکل آغاز کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے کم جونگ ان کے درمیان بظاہر پیار و محبت بڑھی ہے۔ صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے صدر کی محبت میں پھنس چکے ہیں۔ اب ”لٹل راکٹ مین” جسے ”آگ اور غضب کا ایسا سامنا کرنا پڑے گا جیسا اس نے ماضی میں نہ کبھی کیا ہو” کی جگہ اب ٹرمپ کم سے دوبارہ ملاقات کا انتظار کرسکتے ہیں۔ امریکی صدر نے کہا: ’ہم محبت میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مجھے دلکش مکتوب لکھے۔ اور وہ زبردست خطوط تھے۔ اور ہم محبت سے سرشار ہوگئے۔ ہم شمالی کوریا پر زبردست پیش رفت حاصل کر رہے ہیں۔‘
مغربی ورجینا میں اسی تقریر میں ٹرمپ نے حاضرین کو اعتماد دلایا ’میں ابھی اقوام متحدہ سے آیا ہوں، میرا اعتبار کریں وہ دوبارہ ہماری عزت کرنے لگے ہیں۔‘ یہ بیانات عکاسی کرتے ہیں ٹرمپ اور سفارت کاری کی اس عجیب، غیرمعمولی دنیا کی جہاں دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کی پالیسی کسی ایسے شخص کی تعریف میں تبدیل کر دی جاتی ہے جسے تاریخ اور حالات حاضرہ کا عم نہ ہونے کے برابر ہو اور جو اس بات پر زور دے کہ دنیا کے اہم فورم پر کسی کی بےعزتی قابل قبول ہے۔
اقوام متحدہ کے 2018 کے اجلاس میں جو کچھ ہوا اس پر سفارتی حلقوں میں بہت بات ہوئی وہ غیرمعمولی تھا۔ امریکہ کے کسی صدر کی بین القوامی رہنماؤں کے اجتماع میں ایسی بےعزتی یا سلوک پہلے نہیں ہوا تھا۔
اقوام متحدہ کی تاریخ میں کئی ڈرامائی لمحات ریکارڈ کیے گئے۔ نکیتا خروسشیف نے 1960 میں سٹینڈ پر جوتا پٹخنا، فیڈل کاسٹرو کا اسی برس ساڑھے چار گھنٹے طویل امریکی تنقید، ہوگو شاویز کی جانب سے 2006 میں جارج ڈبلیو بش کو شیطان قرار دیتے ہوئے کراس کا نشان بنانا، یاسر عرفات کا 1974 میں پہلی مرتبہ کسی ریاست کے سربراہ نہ ہوتے ہوئے جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا اور کہنا کہ وہ پیغامِ امن کے ساتھ آئے ہیں، اور نو سال قبلء معمر قزافی کی جانب سے اقوام متحدہ کے چارٹر کی کاپی کو پھاڑنا۔ لیکن جس طرز کی کھلی نفرت کا اظہار 2018 کے اجلاس میں دیکھی گئی پہلے نہیں تھی۔
ٹرمپ کے خطاب کے ابتدائی جملے پر کہ ”دو سال سے کم عرصے کی ان کی حکومت نے وہ کچھ حاصل کر لیا جو اس سے قبل کوئی حکومت ملکی تاریخ میں حاصل نہیں کرسکی ہے” قہقہہ فطری تھا۔ یہ ردعمل اس بات پر تھا کہ وہ امریکہ کے ماضی کے واشنگٹن، لنکن، روزویلٹ، کینڈی اور ریگن سے زیادہ موثر اور کامیاب رہنما ہیں۔ یہ ہنسی اس بات کی عکاسی کرتی تھی کہ اس صدر نے اس عہدے کی عزت کا یہ حال کر دیا کہ اس کا مذاق اڑایا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیسے ہی یہ مناظر دنیا بھر کے نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر نشر ہوئے تو ٹرمپ کی ٹیم نے فورا اس شرمندگی کو اچھے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نیکی ہیلی نے کہا کہ مندوبین کی ہنسی کی وجہ ”ان کی ایمانداری تھی۔” تہ اور اس طرح کی دوسری ”وضاحتوں” نے صورتحال مزید دلچسپ بنا دی۔ لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا نامناسب، غیرمہذبانہ اور سفارتی آداب کے منافی تھا۔ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران شکایت کی تھی کہ ”دنیا امریکہ پر ہنس رہی ہے” ۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ خود تنقید برادشت نہیں کرسکتے، ان پر ہنسناانہیں پسند نہیں اور جو کچھ اقوام متحدہ میں ہوا اس نے انہیں تیش دلایا ہوگا۔ کیا یہ مناسب تھا کہ ایک امریی صدر پر اس طرح تنقید ان کے اپنے ملک میں کی جائے؟
لیکن وہاں جو بھی مشاہدہ کیا گیا وہ ٹرمپ صدارت میں لائی گئی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔ سفارت کاری کی عام طور پر تسلیم کی جانے والی تشریح کے مطابق ”یہ لوگوں کے ساتھ حساس اور سوچ سمجھ کر بات کرنے کا فن ہے،” ”ممالک کے درمیان مذاکرات کروانے کا سلسلہ،” ”جارحیت سے بچتے ہوئے بین القوامی امور سرانجام دینا۔” سفارت کاری کے نعم البدل الفاظ ”مصلحت”، ”سمجھ بوجھ” اور ”توجہ” ہیں۔ اس کے متضاد الفاظ میں ”عدم حساسیت”، ”حکمت عملی کا فقدان” یا ”اناڑی پن” ہیں۔ اکثر لوگ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ٹرمپ ان میں کہاں فٹ ہوتے ہیں۔
روایتی سفارتی آداب کو نذر انداز کرنے کے علاوہ ٹرمپ نے اپنی دھماکہ خیز ٹویٹس اور اخباری کانفرنسوں اور تقاریر کے ذریعے بین القوامی تعلقات میں جارحیت اور تصادم متعارف کروایا ہے۔ اس سے اتحادیوں میں بل آخر ردعمل پیدا ہوا ہے اور یہ امریکی صدر کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے مغربی اتحادیوں کے ساتھ میل میلاپ میں تبدیلی کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ٹرمپ سے پہلے ٹکراو میں یورپی رہنماؤ نے باوجود اس کے کہ انہوں نے یورپی اتحاد اور نیٹو کی جانب کوئی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا تھا عوامی سطح پر گرمجوشی اور عزت کا برتاؤ کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ احساس یہ تھا کہ صدر میں عہدہ سنبھالنے اور اپنی انتظامیہ کے لوگوں سے مشورے ملنے کے بعد تبدیلی آئے گی۔ لیکن گزشتہ برس جی سیون اور نیٹو کے اجلاسوں میں دیکھا جاسکتا تھا کہ یورپی رہنما اکثر آپس میں گپ شپ لگاتے دکھائی دیئے جبکہ ٹرمپ کو تصاویر بنانے یا دوسرے درجے کے منی ٹرمپ جیسے ہنگری کے ویکٹر اوربن کے ساتھ چھوڑ دیا۔ یہ ماضی کے ایسے اجلاسوں سے قابل ذکر فرق تھا جہاں امریکی صدر توجہ کا مرکز بنے رہتے تھے اور دیگر بڑے رہنما ان کے ساتھ دیکھے جانا چاہتے تھے۔
اس قسم کی ابتدا میں احتیاط دیگر رہنما اخباری کانفرنسوں میں ٹرمپ سے متعلق سوالات کے جواب گول کرکے کرتے تھے۔ لیکن جب بات زیادہ بڑھی تو اب فوری تردید کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی چند مثالیں گزشتہ برس جولائی میں نیٹو سربراہی اجلاس میں نوٹ کی گئی جب اراکین ممالک نے مشترکہ طور پر صدر کے اس دعوے کی تردید کی کہ انہوں نے ذاتی طور پر انہیں دفاع پر زیادہ رقم خرچ کرنے پر رضامند کیا۔ جرمن حکومت نے ٹرمپ کے اس (غلط) تاثر کی نفی کی کہ ان کا ملک توانائی کے لیے مکمل طور پر روس پر انحصار کرتا ہے۔ انہوں نے توانائی سے متعلق یہی دعوی اقوام متحدہ میں بھی دوہرایا۔ اس موقع پر کیمرہ جرمنی کے مندوبیں پر مرکوز تھا۔ وہ ناراض تو دکھائی نہ دیئے لیکن ان لوگوں کا تاثر دیا جنہیں معلوم تھا کہ جو کہا جا رہا ہے اسے روکا نہیں جاسکتا ہے، لیکن اسے سمنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا ہے۔
یہ صدر ٹرمپ کی اقوام متحدہ میں دوسرا خطاب تھا اور یہ پہلے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا، جس کا مرکز پہلے امریکہ اور عالمگیریت کا ان کا ورشن تھا۔ تاہم دشمنوں کی فہرست تبدیل ہوچکی تھی۔ پہلی تقریر میں اگر کم جونگ ان ’خودکشی کے مشن‘ پر تھے اور امریکی صدر کی دھمکی تھی کہ وہ شمالی کوریا کا مکمل خاتمہ کر دیں گے، دوسری تقریر میں کم کی ان کی ”بہادری” اور ”امن اور آشتی” کے لیے پہلے اقدامات اٹھانے پر تعریف تھی۔
دوسری تقریر میں توپیں ایران کی جانب تھیں۔ ٹرمپ پہلے ہی بین القوامی طاقتوں کے ساتھ اس ملک کے جوہری معاہدے کو ختم کرچکے ہیں – ایک ایسا معاہدہ جس کی باقی شریک ممالک جن میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین پاسداری کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ موثر ہے۔ کوشش یہ تھی کہ اس ملک کی معیشت کو پابندیوں کے ذریعے مفلوج کر دیا جائے۔
یہ سب کافی افراتفری کا شکار ہو گئی۔ ٹرمپ کا فیصلہ تھا کہ وہ نائب صدر مائیک پینس کی جگہ سکیورٹی کونسل کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ برطانیہ نے کیمائی اور بالوجیکل ہتھیاروں پر گفتگو کی مانگ کی تھی تاکہ روس کے سالسبری حملے میں کردار پر بات کی جاسکے اور اس کی مذمت ہوسکے۔ ٹرمپ کا زور تھا کہ توجہ ایران کو دی جانی چاہیے۔
اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے واضح کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ ایرانی صدر سے کہا جائے گا کہ وہ آئیں اور اپنی بات کریں۔ امریکی سفارت کاروں کو احساس ہوا کہ یہ درست نہیں ہوگا کہ حسن روحانی کو ٹرمپ کو ہمدردانہ حاضرین کے سامنے جوہری معاہدے پر چیلنج کرنے کا موقع دیا جائے۔ وائٹ ہاوس نے تاہم فیصلہ کیا کہ موضوع واپس وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کی جانب موڑ دیا جائے۔
ٹرمپ کا خیال ہے کہ انہیں شمالی کوریا پر نوبیل انعام ملنا چاہیے، انہیں کسی کو اس کو جسے وہ کامیابی کے طور پر دیکھتے ہیں اہمیت کم کرتے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ٹرمپ اجلاس میں آدھ گھنٹہ تاخیر سے آئے کیونکہ ان کے ساتھیوں کے بقول وہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو سے ملاقات کر رہے تھے۔ انہوں نے ایران پر تنقید کی لیکن سلامتی کونسل کے چودہ اراکین نے ان کے جوہری ہھتیاروں کے معاہدے پر حملے کو مسترد کرتے ہوئے زور دیا کہ اسے جاری رکھنا چاہیے۔ صدر روحانی نے صحافیوں کو بتایا: ”کسی نے ان کی حمایت نہیں کی، جس کی وجہ سے امریکی یاریخی اور سیاسی طور پر ایک منفرد صورتحال سے دوچار ہوا۔”
اس کے بعد صدر ٹرمپ نے کسی ثبوت کے بغیر دعوی کیا کہ چین، ان کی تجارتی جنگ کا ہدف، 2018 کے نیم مدتی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ (ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکی انتخابات جن کی وجہ سے وہ وائٹ ہاوس پہنچے میں روسی مداخلت کی تحقیقات ابھی جاری ہیں)۔ انہوں نے وسیع تباہی کے ہتھیاروں کے اجلاس میں ایک مرتبہ بھی سالسبری حملے کا ذکر کیا باوجود اس کے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ یورپ میں اعصابی ہتھیار کا استعمال کیا گیا۔
نیو یارک میں جو کچھ بھی ہوا اس نے ٹرمپ انتظامیہ کی بین القوامی تعلقات کے بارے میں رویہ واضح کر دیا ۔ بغیر ثبوت کے الزامات، بےعزتی اور متضاد پیغامات، صورتحال کا غلط احاطہ اور اپنی انتظامیہ کے اراکین کے مشوروں کو نذر انداز کرنا۔
ان تمام مسائل کا حل تھا ماسوائے آخری کے۔ ایک ایک کرکے کابینہ کے سینئر اراکین جنہوں نے ٹرمپ کو قابو میں رکھنے اور منظم خارجہ پالیسی جیسے کہ وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اور قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ آر میک ماسٹر چلے گئے۔ وزیر دفاع جنرل جیمس میٹس بھی جاچکے۔
ان کے متبادل جو لائے گئے ہیں جیسے کہ وزارت خارجہ میں مائیک پامپیو اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن وہ ہیں جو ٹرمپ کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ناکہ انہیں چیلنج کرنے کے لیے ہیں۔ بولٹن دونوں میں زیادہ کمزور ہیں، جنہوں نے کم جونگ ان کی امن کے داعی بننے پر سوال اٹھائے تھے۔ ایک امریکی اہلکار نے کہا: ”بولٹن زیادہ دیر نہیں رہ سکیں گے اگر وہ زیادہ بولتے ہیں۔ بہرحال ٹرمپ کے خیال میں وہ بہت بدصورت ہیں اور ان کی مونچھ بھی انہیں پسند نہیں۔”
صدر ٹرمپ کے اقدامات نے دوسرے ممالک کی جانب سے سفارتی سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے جن میں سے بعض انتہائی کامیاب مانی جا رہی ہیں۔ شمالی کوریا صدر ٹرمپ کے ساتھ انتہائی چالاکی سے چل رہا ہے۔ کم جونگ ان نے فیصلہ کیا کہ صدر کے ساتھ گالیوں کے تبادلے کی بجائے تعریف زیادہ موثر رہے گی۔ لہذا ٹرمپ کی انتہائی تعریف سے لدھے ”دلکش خطوط” سامنے آئے ہیں۔ پھر کسی پیشگی شرط کے بغیر سنگاپور میں سربراہی اجلاس، ایسا اقدام جو ماضی کے ہر صدر نے مسترد کیا کیونکہ اس سے انہیں خدشہ تھا کہ پیانگ یانگ کے سخت موقف کے سود مند ہونے کا تاثر ملے گا۔
یقینا، ٹرمپ نے اس ملاقات کو اپنے قیادت کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا، اور میڈیا کی جانب سے سے تسلیم نہ کرنے کو "غداری" قرار دیا۔ حقیقت میں، شمالی کوریا نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے اور بنیادی طور پر کہا ہے کہ اس کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جوہری تجربات وقتی طور پر روکے گئے ہیں، اور پیانگ یانگ نے واضح کیا ہے کہ یہ ایک عارضی قدم ہے۔ ملک میں قید بعض امریکی شہری آزاد ہوگئے ہیں اور کوریائی جنگ میں ہلاک ہونے والے بعض امریکی فوجیوں کی باقیات لوٹائی گئی ہیں۔ بدلے میں، کم جونگ ان نے اپنا ایک بنیادی مقاصد: امریکہ اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں کا خاتمہ حاصل کیا ہے۔
اس وجہ سے کم جونگ ان اپنے آپ کو وہ حاصل کرنے پر مبارک باد دے سکتے ہیں جو ان کے باپ اور دادا کو حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی تھی: جوہری ہتھیار کی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے، واشنگٹن اور سیول کے درمیان فوجی اتحاد کو کمزور بنانے، اور بین الاقوامی منظوری حاصل کرنے اور امریکہ کے ساتھ برابری کے علاوہ ایک امریکی صدر کی شفقت۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دشمن نمبر ایک، شمالی کوریا کی جگہ لینے والے ایران کے ساتھ کیا ہوگا کا معاملہ بھی سفارتی اقدامات کا سبب بنا ہے۔ تہران کے ساتھ مشترکہ وسیع منصوبہ کاری کے ایکشن (جے سی پی او اے) کے دوسرے فریق - جن میں برطانیہ اور روس شامل ہیں، جن کے تعلقات نوویچوک حملے کے بعد سب سے کم سطح پر ہیں - امریکہ کے تادیبی اقدامات کے نقصان سے بچانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
یورپی یونین، ایران، چین اور روس نے امریکہ کے ایران کے خلاف یکطرفہ اقدامات کے اثرات کو کم کرنے اور ایرانی معیشت کو سہارا دینے کی خاطر خصوصی اقدامات کیے ہیں تاکہ ایران کو معاہدہ ختم کرنے سے روکا جاسکے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یورپی یونین کے خارجہ معاملات کے سربراہ فیڈریکا موغرنینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام ایران کے برآمدات سے متعلق ادائیگیوں میں سہولیات فراہم کرے گا جب تک اس میں شریک یورپی یونین کے قوانین کے تحت جائز کاروبار کر رہے ہوں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مغرب کی جانب کھڑکی کے بند ہونے کے بعد ایران اب مشرق کی جانب دیکھ رہا ہے۔ تہران، بیجنگ اور ماسکو کے درمیان سفارتی اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
بے شک، چین امریکہ کی ایران کی پالیسی کا سے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک بن رہا ہے۔ فرانسیسی کثیرالملکی ٹوٹل کے امریکی جرمانے کے خدشے سے نکل جانے کے بعد مضبوط امکان ہے کہ چین اس پانچ ارب ڈالرز کی جنوبی پارس گیس فیلڈ کو حاصل کرلے گا۔ دریں اثناء دریں اثنا، ماسکو کے زیر قیادت یوریشین اقتصادی یونین نے ایران کے ساتھ کم ٹیرف اور آزاد تجارت کے علاقے کا حصہ بنانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
وہ ممالک جو ایران جوہری معاہدے کو ثبوتاژ کرنا چاہتے تھے ان میں اسرائیل اور سعودی قیادت میں سنی بلاک شامل تھے۔ اسرائیل طویل عرصے سے ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ سعودی اور دیگر سنی ممالک تہران بدامنی پھیلانے اور خطے میں شعیہ بالاستی قائم کرنے کا الزام عائد کرتا ہے۔ اسرائیل اور سعودیوں کو یہ کامیابی کسی اور کے وائٹ ہاوس میں ہونے کی صورت میں حاصل کرنا ناممکن ہوتا۔
وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد مئی 2018 میں ٹرمپ کا پہلا غیر ملکی سفر خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کو تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب ممالک کو سفر کا ایک اہم مقصد ہتھیاروں کی فروخت تھا جس کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ریاض میں رہنماؤں سے ملاقات کرتے ہوئے امریکی صدر نے خود فروخت کا موضوع اٹھایا۔ انہوں نے قطر کے امیر، شیخ تمیم بن حمد الثانی سے وعدہ کیا کہ دو آدمی "بہت سارے خوبصورت فوجی سازوسامان” سے متعلق بات کریں گے کیونکہ کوئی بھی اسے امریکہ سے بہتر نہیں بناتا۔ انہوں نے کویت کے امیر کے ساتھ ملاقات میں نوٹ کیا کہ یہ ممالک امریکی ہتھیار کے اچھے گاہک تھے۔
سعودی قیادت میں ہتھیار کی خریداری نے اس مہم میں یقینی طور پر مدد کی ہے کہ وہ امریکہ کو ایران کے ساتھ معاہدے مسترد کر دے۔ یہ صورتحال کسی اور امریکی صدر کے ساتھ مشکل ہوتی۔ درحقیقت ٹرمپ فروخت کے بارے میں جب شہزادہ محمد بن سلمان نے 2018میں امریکہ کا دورہ کیا تھا اس وقت سے کوشش کر رہے تھے۔
اوول آفس میں شہزادے کے ساتھ بیٹھے ہوئے، ٹرمپ نے خریداری کی وسعت ظاہر کرنے کے لیے نقشوں کی مدد لی تھی۔ ٹرمپ اس موقع پر جمع صحافیوں کو بتایا کہ "سعودی عرب ایک بہت امیر ملک ہے، اور وہ امریکہ کو اس دولت میں سے کچھ دے گے، امید ہے، ملازمت کی صورت میں اور دنیا بھر میں سب سے بہترین فوجی سازوسامان کی خریداری کی شکل میں۔"
شہزادے، جنہیں ایم بی ایس کے طور پر جانے جاتے ہیں، ٹرمپ کی جانب سے اپنی فروخت کے دعووں سے بےچین دکھائی دیئے۔ شہزادہ محمد جدت پسند ہیں جو گھر پر اصلاحات کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ وہ شبہہ ہے جو سعودی دنیا کو نہیں دکھانا چاہتے ہیں۔ اس شاہی دورے کا مقصد ہی دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ کیسے سعودی عرب تبدیل ہو رہا ہے۔ سفر کے پہلے حصے میں لندن میں (1.1 ملین پونڈ کی قیمت پر بل بورڈز نصب کئے گئے) جن میں کہا گیا تھا کہ ’وہ [ایم بی ایس] سعودی عرب کو دنیا بھر کے لیے کھول رہے ہیں۔‘
ٹرمپ کی تجارت پر توجہ اتحادیوں کے درمیان ایک دراڑ ڈال رہی ہے اور مخالفین کو ساتھ ملا رہی ہے۔ یہ پالیسی چین اور بھارت دونوں پر اثر انداز ہوئی ہے۔ دنیا کے ان دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کا جی ڈی پی اگلی دو دھائیوں میں جی سیون ممالک سے بڑھ جائے گا اور دونوں ممالک نے گلوبلائزیشن سے بہت فائدہ اٹھایا ہے، کیونکہ تکنیکی اور سماجی ترقی اندرونی اقتصادی ترقی سے منسلک ہے۔
بیجنگ امریکہ کی بنیادی توجہ کا مرکز ہے، لیکن دلی بھی اس کا اثر محسوس کر رہا ہے۔ انتظامیہ کے سینئر ارکان بشمول سابق سیکرٹری دفاع میٹس ٹرمپ کو ٹیرف میں بھارت کو چھوٹ دینے پر قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
نتیجتا، چین اور بھارت جوکہ کئی دہائیوں کی دشمنی میں پھنسے ہوئے ہیں - تعلقات میں تیزی سے بہتری کی کوشش کر رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ انڈیا کو واشنگٹن چین کی جانب دھکیل رہا ہے جبکہ کئی سابق امریکی انتظامیہ دلی کو اقتصادی، سیاسی اور فوجی منصوبوں کے ذریعے بیجنگ کے خلاف ایک اسٹرٹیجک اتحادی میں تبدیل کرنے میں مصروف تھیں۔
امریکی سفارت کار شکایت کرتے ہیں کہ صدر بڑی تصویر نہیں دیکھتے ہیں۔ لیکن جب تک وہ اس عہدے پر ہیں اس میں تبدیلی کی کوئی بڑی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے مشیروں سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے پالیسی پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ٹراپ کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ غیر روایتی نقطہ نظر لینے سے دراصل کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ اگر صدر نے ابتداء میں سخت موقف اختیار نہ کیا ہوتا تو کیا کم جونگ اتنے تابیدار بن سکتے تھے؟ اسی طرح ان کا یہ کہنا ہے کہ میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ نئے تجارتی معاملہ، جس کا ٹرمپ نے اعلان کیا "واقعی ہمارے ملک اور دنیا کے لیے ایک تاریخی خبر" تھی۔ یہ ممکن نہیں ہوتا اگر وہ دونوں ملکوں پر زیادہ ٹیرف نافذ کرنے کی ابتدا میں دھمکی نہ دیتے۔
جو ہو رہا ہے اس کا ناصرف امریکہ کے اندرونی سیاسی منظرنامے پر بلکہ عالمی سفارتی معملات میں بھی صدر ٹرمپ نے ذاتی اور غیرمعمولی اثر چھوڑا ہے۔
© The Independent