عیدالاضحٰی پر ریلیز ہونے والی فلم ’پَرے ہٹ لوّ‘ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہدایت کار عاصم رضا نے محبت کی اس داستان میں اتنے رنگ اور ستارے بھرے ہیں کہ کبھی دھنک اور کبھی کہکشاں کا گماں ہوتا ہے۔
فلم کی کہانی شروع تو لڑکے اور لڑکی کی ملاقات سے ہی ہوتی ہے مگر رفتہ رفتہ اس میں دیگر کردار بھی شامل ہوتے رہتے ہیں۔
شہریار منور صدیقی، جں کا اس فلم میں بھی نام شہریار ہی ہے، اداکار بننے کی تگ و دو میں مصروف ایک بےچین طبیعت کا نوجوان ہے جو کسی بھی قسم کے بندھن سے ڈرتا ہے۔
ثانیہ (مایاعلی) شہریار کی دور پار کی کزن ہے، جس سے اس کی ملاقات خاندان کی ایک شادی پر ہوتی ہے اور یہیں ان کے درمیان جذبات پروان چڑھتے ہیں اور پھر کہانی ان دونوں کی محبت، غصے، حالات، ماضی اور مستقبل کے پیچ و خم کے گرد گھومتی ہے۔
شہریار اور مایا کے ساتھ ساتھ اس فلم کے نہ صرف معاون بلکہ مہمان اداکار بھی بہت بڑے نام ہیں۔ جیسے ثانیہ کے والد فیصل کا کردار ندیم بیگ صاحب نے نبھایا ہے۔ شہریار کے قریبی دوستوں میں ارشد (احمد علی بٹ) ہدایت کار بننے کی کوششوں میں مصروف ہے جب کہ اس کی پروڈکشن اسسٹنٹ شبّو (زارا نور عباس) شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہریار کی والدہ کا کردار حنا دلپذیر جبکہ والد کا کردار منوّر عالم صدیقی نے ادا کیا ہے۔
پھر زینہ کے کردار میں ماہرہ خان جبکہ بطور مہان اداکار فواد خان، مرینہ خان، میرا، سونیا جہاں، سبل چوہدری، سیفی حسن اور عمران اسلم بھی نظر آتے ہیں۔
ان تمام ستاروں کے جھرمٹ میں چمکتی دمکتی اس فلم کو جب سُروں کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہاں آذان سمیع خان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی نے یہ کام انجام دے دیا۔
یہ فلم ہدایت کار عاصم رضا کی دوسری فلم ہے، لیکن اگر اس کا تقابل ان کی پہلی فلم’ہو مَن جہاں‘ سے کیا جائے، تو بطور فلم ساز عاصم رضا نے بہت لمبی اور اونچی جست لگائی ہے جہاں وہ پردہ سیمیں پر دیکھنے والوں کے جذبات و احساسات کو بہت عمدگی سے توڑتے اور جوڑتے ہیں۔
’پرے ہٹ لوّ‘ کے مصنّف عمران اسلم ہیں، لیکن مجوعی طور پر یہ ایک انگریزی فلم ’ فور ویڈنگز اینڈ فیونرل‘ سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسے مقامی معاشرت و تمدّن میں بہت عمدگی اور نہایت پختگی سے ڈھالا گیا ہے۔
اداکاری کی بات کریں تو شہریار منوّر نے ’سات دن محبّت اِن‘ اور ’پراجیکٹ غازی‘ میں خود پر اداکاری کے ضمن میں ہونے والی شدید نکتہ چینی کا نہایت تحمّل سے جواب دیا ہے۔ شروع سے آخر تک ان کا کردار ارتقا کے ایک بھرپور عمل سے گزرتا ہے۔ بانکے سجیلے نوجوان کے روپ سے لے کر ایک ناکام عاشق اور پھر کامیاب اداکار، یہ سب روپ شہریار نے عمدگی سے نبھائے۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور مکالمے سب ہم آہنگ رہے۔
مایا علی نے ثانیہ کے روپ میں ایک بار پھر دل موہ لینے والی اداؤں کا جادو چلایا اور ایک روایتی سی دیسی ہیروئین کا کردار اپنے جاندار انداز سے یادگار بنا دیا۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ ’طیفا ان ٹربل‘ میں اُن کی کامیابی کوئی تُکّا نہیں تھی۔
مایا علی پاکستانی فلمی صنعت کے لیے ایک مکمل ہیروئین بن کر سامنے آئی ہیں جو نہ صرف اچھی اداکارہ ہیں بلکہ ایک اچھی رقاصہ بھی ہیں۔ سینما کے بڑے پردے پر ان کا ایک اپنا ہی کرشمہ ہے۔ سب سے بڑھ کر اس فلم کے ذریعے پاکستانی کی نوزائیدہ فلمی صنعت کو ایک خوبصورت فلمی جوڑی ملی ہے۔
احمد علی بٹ نے ارشد کےکردار میں جو پھلجھڑیاں بکھیری ہیں وہ کئی مقامات پر آپ کو مسکرانے اور کچھ مقامات پر قہقہہ لگانے پر مجبور کردیتی ہیں۔
زارا نور عباس کی یہ پہلی فلم ہے، عاصم رضا کا کہنا ہے کہ ’زارا میری دریافت ہے‘ اور زارا نے شبّو بن کر واقعی کمال کردیا۔ ان کی بےساختہ اداکاری نے کئی مرتبہ تناؤ کے ماحول کو شگفتہ بنادیا۔
دیگر کرداروں میں حنادلپذیر نے شہریار کی ماں کے کردار کو اپنے انداز سے چُلبلا بنادیا، وہیں ندیم بیگ نے ایک کہانی نویس کے کردار میں فلم کو جِلا بخشی۔
اس فلم میں ایک دلچسپ بات ایک پارسی شادی کی تقریب ہے جن کی رنگا رنگ ہزاروں سال پرانی ثقافت کو سینما میں دیکھنا ایک خوشگوار اور اچھوتا تجربہ تھا۔
ماہرہ خان کا اس فلم میں اگرچہ بہت ہی مختصر کردار ہے مگر میں انہیں مہمان اداکار نہیں کہوں گا کیونکہ اس کردار کے بغیر اس فلم کی کہانی ادھوری ہی رہتی۔ تاہم قابلِ ذکر صرف ماہرہ کا وہ کتھک رقص ہے جو انہوں نے ’مورے سیّاں‘ پر کیا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انہوں نے کسی فلم میں کتھک رقص کیا ہے۔ ماہرہ خان کے چاہنے والوں کے لیے تو یہ فلم ایک خاص تحفہ ہے۔
دیگر مہمان اداکاروں نے فلم کی کہانی تو زیادہ آگے نہیں بڑھائی مگر ’اسٹار پاور‘ ضرور شامل کی۔
فلم کی موسیقی بہت ہی مدُھر ہے۔ آذان سمیع خان نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بہت ہی اعلیٰ موسیقی ترتیب دی ہے۔ شادی کا گانا ’ایک پَل‘ اور ’ہائے دِل‘ اچھے ڈانس نمبرز ہیں۔ جبکہ ’مورے سیاں ‘کی میلوڈی بہت میٹھی ہے جسے زیب بنگش نے گایا ہے۔ فلم کے آخر میں آئمہ بیگ کا گایا ہوا ’بَلما بھگوڑا‘ بھی ایک اچھا پارٹی کا گانا ہے۔
غرض عاصم رضا کی فلم ’پَرے ہٹ لوّ ‘ محبت کی ایک خوبصورت داستان ہے، جس میں رومانس کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ رومانس صرف شہریار اور ثانیہ کے کرداروں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس میں ارشد اور شبّو کے کرداروں کی لَو سٹوری کے ساتھ طناز اور رستم کی محبت کی کہانی بھی ملے گی جس سے اس کی چاشنی میں اضافہ ہوتا ہے۔
Star Rating: 4.0 / 5.0