ضمنی بلدیاتی انتخابات کے باوجود کراچی میئر سے محروم

پاکستان پیپلزپارٹی نے جماعت اسلامی کو ایک بار پھر ڈپٹی میئر کا عہدہ دینے کی پیشکش کی ہے، جماعت اسلامی کی جانب سے پہلے روز سے ہی ڈپٹی میئر کا عہدہ لینے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کی با ت کی جارہی ہے۔

کراچی میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب کے موقع پر 16 اکتوبر 2022 کو مرد و خواتین وٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے سات اضلاع کی 11 یوسیز میں چیئرمین و وائس چیئرمین اور 15 وارڈز کی نشستوں پر ضمنی بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا لیکن وسط جنوری میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور ضمنی انتخاب کے باوجود اب تک کراچی میں میئر منتخب نہیں ہو پایا ہے۔

حالیہ ضمنی بلدیاتی انتخابات کے غیرسرکاری و غیرحتمی نتیجے کی بنیاد پر 11 یوسیز میں سے 7 پر پاکستان پیپلزپارٹی اور 4 پر جماعت اسلامی کے امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما سعید غنی نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی کی 11 میں سے سات یو سیز پیپلز پارٹی نے جیت لیں اور اسی کے ساتھ ہی سعید غنی نے جماعت اسلامی کو کراچی میں ساتھ مل کر کام کرنے کی دعوت بھی دے دی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی دونوں جانب سے سیاسی بیان بازی بھی جاری ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ ’جماعتِ اسلامی کا طرزِ عمل غیر سیاسی ہے آج بھی انہوں نے ضمنی انتخابات کے موقع پر بدمعاشی کی ہے۔ جماعتِ اسلامی کے مینڈیٹ پر بہت سے سوالات ہیں مگر اس کو ہم مانتے ہیں، مگر آپ کو بھی ہمارا مینڈیٹ تسلیم کرنا پڑے گا۔‘

اس موقع پر سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ ’کراچی میں میئر پیپلز پارٹی کا ہو گا اگر جماعت اسلامی کو شوق ہے تو وہ ڈپٹی میئر کے عہدے کے لیے ہم سے رابطہ کر لیں۔‘

وزیر محنت و افرادی قوت اور سعید غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے جنوری میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے بعد الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ آپ میئر اور  ڈپٹی میئر کے انتخابات کروا دیں جو نہیں ہو سکے کیوں کہ جو بھی ہورہا ہے یہ الیکشن کمیشن کا اپنا فیصلہ تھا آج بھی ہم یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن میئر اور  ڈپٹی میئر کے لیے کوئی فیصلہ لے تاکہ کراچی کو ایک اچھا میئر مل سکے۔‘

سعید غنی کا مزید کہنا تھا کہ ’ابھی ضمنی بلدیاتی الیکشن ہوئے بھی نہیں تھے کہ جماعت اسلامی نے دھاندلی کا رونا شروع کر دیا تھا کیوں کہ جماعت اسلامی کو بخوبی علم تھا کہ انہیں نشستیں کم ملیں گی وہ پیپلز پارٹی سے ہار جائیں گے۔‘

دوسری جانب امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے ہنگامی پریس کانفرنس میں کہا کہ جعلی نتائج قبول نہیں کریں گے، پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے پولنگ سٹیشنز پر قبضہ کر کے دھاندلی کی۔‘

اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’دھاندلی میں پولیس کو بھی شامل کیا گیا ہے، پی پی جمہوریت کے پردے میں اپنا میئر مسلط کرنا چاہتی ہے، مرکزی اور صوبائی الیکشن کمیشن دھاندلی کا نوٹس لیں۔‘

جماعت اسلامی کے ترجمان زاہد عسکری نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’الیکشن کمیشن اور پیپلز پارٹی کی ملی بھگت ہے جو کراچی ابھی تک میئر شپ سے محروم ہے۔ رہی بات پیپلز پارٹی کی جانب سے دی گئی دعوت کی  ہم  ان سے ہاتھ کس بنیادملائیں؟ پیپلز پارٹی نے فسطائیت اور دھاندلی کی ہے، تو ہمیں پہلے دھاندلی کا جواب چاہیے۔‘

ترجمان جماعت اسلامی نے بتایا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت ہو گی تحریک انصاف نے بھی ہم سے رابطہ کیا ہے ہم نے بھی کیا ہے ہماری کوشش ہے کہ جلد از جل کراچی کو میئر مل جائے۔ جو بھی میئر شپ میں تاخیر ہو رہی ہے وہ پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے ہے۔‘

اُدھر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ارسلان تاج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر تحریک انصاف کو کسی جماعت سے اتحاد کرنا ہو گا تو ہم پیپلز پارٹی سے تو بالکل بھی نہیں کریں گے یہ بات اٹل ہے، جبکہ کراچی تو دوسال سے میئر سے محروم ہے جس کی پہلی وجہ پیپلز پارٹی ہے۔‘

پی ٹی آئی کے رہنما کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی نے الیکشن کروانے میں تاخیر کی اس کا ثبوت یہ ہے کہ پریزائیڈنگ آفیسر کو بیلٹ پیپیر آٹھ ماہ پہلے سے دیے جا چکے تھے جس کی تاریخیں تبدیل کی گئیں، بیلیٹ پیپرز پر ہمیں ابھی بھی خدشہ ہے کہ پیہلز پارٹی مزید دھاندلی کرے گی الیکشن کا پورا عمل دھاندلی فراڈ سے بھرپور تھا الیکشن متنازع ہو چکا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے قابو میں ہے جو پیپلز پارٹی چاہتی ہے الیکشن کمیشن وہی کرتا ہے پیپلز پارٹی کی جب دھاندلی مکمل ہو جائے گی تو کراچی میں میئر بھی آجائے گا۔‘

سینیئر صحافی اسلم خان مختلف ٹی وی چینلز میں اہم عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پیپلزپارٹی 98 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، جماعت اسلامی کی 86 نشستیں ہیں، پاکستان تحریک انصاف 42 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔‘

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی 246 نشستو ں میں سے 238 پر پارٹی پوزیشن واضح ہوچکی ہے، صرف آٹھ نشستوں کا معاملہ عدالت اور الیکشن کمیشن کے پاس زیر سماعت ہے۔‘

اسلم خان کے مطابق: ’پاکستان پیپلزپارٹی نے جماعت اسلامی کو ایک بار پھر ڈپٹی میئر کا عہدہ دینے کی پیشکش کی ہے، جماعت اسلامی کی جانب سے پہلے روز سے ہی ڈپٹی میئر کا عہدہ لینے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کی با ت کی جارہی ہے۔ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والی جماعتیں تحریک انصاف کی مدد کے بغیر میئر نہیں لاسکتیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلم خان کا کہنا ہے کہ ’میئر کراچی بننے کے لیے سادہ اکثریت 124 ارکان ہیں۔ اور کسی بھی جماعت کے پاس اتنی نشستیں نہیں ہیں۔ تو تحریک انصاف کا کردار فیصلہ کن ہوگا۔ جماعت اسلامی ڈپٹی میئر کا عہدہ کیوں قبول نہیں کررہی اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بحیثیت میئر کراچی جو اختیارات ہیں وہ ڈپٹی میئر کو حاصل نہیں ہوں گے۔‘

سینیئر صحافی اسلم خان کا کہنا ہے کہ ’جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں اس نے جس طرح بھرپور مہم چلائی، ڈپٹی میئر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ کراچی کے لیے موثر انداز میں کام نہیں کرسکے گی جس کا اثر آنے والے عام اور پھر بلدیاتی انتخابات میں عوام کی جانب سے اس پر عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی کا خیال ہے کہ ڈپٹی میئر کا عہدہ قبول کرنے کے بجائے کراچی میں 10 سے 11 ٹاؤن میں ٹاؤن ناظم پر توجہ دے۔

’اپوزیشن میں رہ کر ایک طرف وہ حکومت پر ترقیاتی کاموں کے لیے دباؤ بڑھا سکے گی اور کام نہ ہونے کی صورت میں اس کے پاس یہ جواز ہوگا کہ وہ حکومت میں نہیں اس لیے ترقیاتی کاموں کے لیے اسے فنڈز جاری نہیں کیے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما بھی اپوزیشن میں بیٹھنے کے آپشن پر غور کررہے ہیں۔‘

اسلم خان سمجھتے ہیں کہ ’میئر کراچی کے لیے 98 نشستوں کے ساتھ پیپلزپارٹی سب سے مضبوط پوزیشن میں ہے، اسے اتحادی جماعت مسلم لیگ ن کے سات اور جمعیت علمائے اسلام کے تین ارکان کی بھی حمایت حاصل ہوگی اور اس طرح اس کے پاس 108 ارکان کی حمایت ہوگی۔

’تحریک انصاف کے 42 ارکان میں سے متعدد ارکان سے پیپلزپارٹی کے رہنما رابطے میں ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ میئر کراچی کے لیے درکار 124 ارکان کی حمایت وہ جلد حاصل کرلیں گے۔‘

تحریک انصاف سے بطور پارٹی اب تک پیپلزپارٹی رہنماؤں کے رابطے نہیں ہوسکے ہیں۔ 15 جنوری کے بلدیاتی انتخابات کے بعد بھی دونوں جماعتوں کے درمیان سردمہری ہی رہی تھی۔ اس لیے پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ جماعت اسلامی کو ڈپٹی میئر کے عہدے کے لیے منالے۔

اگر ایسا ہوگیا تو میئر کراچی جیالا ہوگا اور ساتھ ہی اسے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں مضبوط اپوزیشن کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔

دوسری طرف جماعت اسلامی میئر کراچی بنانے کی پوزیشن میں اس وقت آسکتی ہے جب اسے تحریک انصاف کے تمام ارکان کی بھرپور حمایت حاصل ہو اس سے دونوں جماعتوں کے اتحاد کے بعدان کی تعداد 129 تک پہنچ جائے گی۔

لیکن اگر تحریک انصاف کے چند ارکان بھی مخالف صف میں چلے گئے تو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے لیے اپوزیشن میں بیٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست