کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد میئر سازی کے سلسلے میں جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان پہلی ملاقات ہوئی ہے جس میں پیپلز پارٹی نے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ جماعت اسلامی بلدیاتی اداروں میں اس کے ساتھ مل کر کام کرے تاہم جماعت اسلامی کی جانب سے اس سلسلے میں مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔
جمعرات کو پیپلزپارٹی کے وفد نے جماعت اسلامی کراچی کے دفتر ادارہ نور حق کا دورہ اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن سے ملاقات کی اور بعد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔
اپنے خطاب میں نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ ’تمام تر تحفظات کے باوجود ہم جس کا جو اصل مینڈیٹ ہے اس کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جماعت اسلامی اگر ایک بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آگئی ہے تو ضروری نہیں کہ نمبروں کو آگے پیچھے کر کے اس کا سائز کم کرنے کی کوشش کی جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ جگہوں پر دوبارہ گنتی جاری ہے۔ ہمیں سب سے زیادہ تگ و دو فارم 11 اور 12 کے اجرا اور نتیجوں کی تبدیلی پر کرنی پڑی۔ الیکشن کمیشن کے ساتھ کچھ یوسیز کا معاملہ اٹھایا ہے، جو 23 تاریخ کو طے ہوگا۔‘
امیر جماعت اسلامی کراچی کا کہنا تھا کہ ’جن یوسیز میں دوبارہ گنتی چل رہی ہے اور اس کے نتیجے میں نتائج تبدیل ہو رہے ہیں اس پر ہمیں جو بھی تحفظات تھے وہ ہم نے پیپلزپارٹی کو بتا دیے ہیں۔ امید ہے کہ سعید غنی اور ان کی ٹیم اس کو دیکھے گی، ہم انتظار کریں گے اور اس کے بعد اگر چیزیں بہتر ہوئی تو بات چیت کریں گے۔‘
اپنے خطاب میں پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی کا کہنا تھا کہ ’ہم پیپلزپارٹی کی جانب سے جماعت اسلامی کو مبارک دیتے ہیں کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے کراچی کے اندر کافی نشستیں حاصل کی ہیں اور ہمیں ملاقات کا موقع دیا۔ ہم نے جماعت اسلامی سے ملنے کی درخواست کی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی مل کر اس شہر کے بلدیاتی اداروں میں ساتھ چلیں۔ یہ اس شہر اور اس کے اداروں کے لیے بہت اچھا موقع ہے کہ دو سیاسی جماعتوں اس شہر کو بہتر بنانے کے لیے ساتھ چلیں۔‘
سعید غنی نے کہا یقیناً جماعت اسلامی کے کچھ سوالات اور اعتراضات ہیں، یہ ان کا برملا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ ’آپ کے علم میں ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے دوران سارا سیٹ اپ الیکشن کمیشن کے ماتحت ہوتا ہے اور ہمارے براہ راست اختیار میں ساری چیزیں نہیں ہوتیں۔
’لیکن اس کے باوجود ہم نے یہ یقین دہائی کرائی ہے کہ جماعت اسلامی کے جو بھی اعتراضات ہیں، ان کے لیے جہاں بھی حکومت سندھ کردار بنتا ہوا تو وہ ہم لازمی ادا کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جماعت اسلامی نے اپنے شکایت کے حل کے لیے قانونی راستے اختیار کیے ہیں، ہم ان میں بالکل خلل نہیں ڈالیں گے۔
جن چھ حلقوں کا ذکر گذشتہ دنوں سے حافظ صاحب کر رہے تھے، کل ہی الیکشن کمیشن نے اس پر نوٹس لیا اور ان چھ حلقوں پر ڈی آر او، آر او کو مزید کسی کام سے روک دیا ہے۔‘
سعید غنی کا کہنا تھا کہ ’23 تاریخ کو وہ الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوں گے اور اس پر الیکشن کمیشن جو بھی فیصلہ کرے گا ہم اس کو تسلیم کریں گے اور قانون کے مطابق اس پر آگے بڑھیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم نے یہ بھی طے کیا ہے کہ ان تمام مسائل کو خوش اسلوبی سے طے کریں گے اور مزید بات چیت کے مراحل جاری رکھیں گے تاکہ کسی بہتر نتیجے پر دونوں جماعتیں پہنچ سکیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ الیکشن مکمل ہونے کے بعد چیزوں کا تعلق آر اوز سے ہے اس میں الیکشن کمیشن اور حکومت کا بھی کردار بنتا ہے۔
’ہم چاہتے ہیں کہ مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ شہر میں ایسی فضا کیوں پیدا ہو جس کے نتیجے میں کوئی کسی کو تسلیم نہ کرے۔ جو جیت گیا اس کو تسلیم کرنا چاہیے۔‘
ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ کراچی کے تین تین اضلاع میں حکمرانی کی بات غلط ہے۔
کیماڑی میں حالات خراب ہونے کے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اختلافات کے باوجود ہماری ذمہ داری ہے کہ سیاسی کارکنوں کے درمیان کشیدگی نہ بڑھے۔ جب دونوں نے مل کر کام کرنا ہے تو کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ کارکنان میں کشیدگی ہو۔‘
کیا نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال جیسے سٹی ناظم آ سکتے ہیں؟
سابق سٹی ناظم کے مشیر اور رابطہ کار فیاض عالم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئی بتایا کہ ’جب نعمت اللہ خان کو 2001 میں نظامت ملی اس وقت شہر کا انفراسٹرکچر تباہ حال تھا، نعمت اللہ خان کے سامنے بہت سےچیلنجر تھے، انہوں نے کمال مہارت کے ساتھ شہر کو چلایا، آنے والی بہت سی نسلیں ان کے کارناموں کو نہیں بھلا سکیں گی۔‘
فیاض عالم کا کہنا تھا اس دور میں کراچی بلکہ ملک بھر میں پہلی بار سی این جی پر چلنے والی بسوں کو متعارف کرایا گیا۔ شہر کی ہریالی کو بہتر بنانے کے لیے محکمہ باغبانی کو متحرک کیا اور چار برسوں میں سینکڑوں پارکس کو ازسر نو تعمیر کرایا اور کئی میدانوں کی حالت بہتر کرائی۔
’بیشتر میں فلڈ لائٹس کی تنصیب ہوئی، جبکہ کراچی کے 18 ٹاونز میں سے ہر ٹاؤن کو کم از کم ایک ماڈل پارک بنا کر دیا۔ یہ ماڈل پارکس ملک بھر میں اپنی نوعیت کےمنفرد پارکتھے۔‘
فیاض عالم کے مطابق: ’سابق سٹی ناظم نے کروڑوں روپے کی لاگت سے چورنگیوں کی تزئین و آرائش کے بعد ان کوسگنلائز کیا اور شہر میں سڑکوں، فلائی اوورز، انڈر پاسز اور پلوں کا جال بچھا دیا، ان شاہراہوں، چوراہوں اورگلیوں میں روشنی کا بہترین انتظام کر کے آپ نے ایک مرتبہ پھر کراچی کو ’روشنیوں کا شہر‘ بنا دیا۔‘
کراچی میں پہلی بار سٹی گیمز کا انعقاد بھی نعمت اللہ خان کا ایک کارنامہ ہے۔ نعمت اللہ خان کی بہترین شہری خدمات کےنتیجے میں 2005 میں دنیا کے بہترین میئرز کی فہرست میں شامل ہوئے، مگر حتمی نتیجہ آنے سے قبل ہی آپ کی مدت نظامت ختم ہو گئی۔
مصطفی کمال کی کوششیں نظر انداز نہیں کی جا سکتیں
سینیئر صحافی اسلم خان نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کی اور بتایا کہ ’ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مصطفی کمال اور نعمت اللہ خان کے دور میں شہر قائد میں تعمیر اور ترقی کا سفر طے ہوا 2005 سے 2009 کے درمیان سابق سٹی ناظم مصطفی کمال بھر پور جوش کے ساتھ نظامت میں رہے اور شہر کی صورتحال کی باگ ڈرور سنبھالی، مصطفی کمال کی نظامت میں لیاقت آباد انڈر پاس ناظم آباد اور کلفٹن کے انڈر پاسز بنے اور پنجاب چورنگی کے انڈرپاس پر کام شروع ہوا۔‘
سینیئر صحافی اسلم خان نے مزید یہ بھی بتایا کہ ’اس وقت شہری حکومت مالی طور پر مستحکم تھی، کراچی میونسپل کارپوریشن میں اربوں روپے کے منصوبوں پر با آسانی کام ہو جاتا تھا لیکن اب کا میئر کراچی دو کروڑ روپے سے زائد کی جو سکیم ہوگی اس پر سندھ محکمہ لوکل بورڈ کو خط لکھے گا یا ترقیاتی سکیم بنا کر بھیجے گا۔ میئر کراچی کا اختیار نہیں کہ وہ دوکروڑ سے زیادہ کی ترقیاتی اسکیم بنا سکے۔‘