جنوبی غزہ کے شہر خان یونس سے تعلق رکھنے والے ھیثم السقا چھوٹے قد کے حامل ہیں لیکن وہ ہر ہفتے فٹ بال کے تربیتی سیشن میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ھیثم السقا اور ان ہی کے جیسے ان کے ساتھی ایتھلیٹس نے بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں شرکت کی امید کے ساتھ اپنی ایک فٹ بال ٹیم تشکیل دی ہے۔
تین بچوں کے والد ھیثم کے مطابق اس ٹیم کی تشکیل نے ان کی زندگی کو بدل دیا ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں بہت سے لوگ انہیں ’خصوصی انسان‘ کے طور پر دیکھتے تھے، اس ٹیم کی بدولت ھیثم وہ سب کر سکتے ہیں جو انہیں اچھا لگتا ہے اور جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔
تربیتی میدان میں موجود ھیثم نے کہا: ’ہم یہاں کمیونٹی کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم دوسرے لوگوں کی طرح ہی ہیں اور ہم اپنے مشاغل پورے کر سکتے ہیں۔‘
ٹیم کے کوچ محمد زکوت نے کہا کہ یہ سکواڈ صرف دو ماہ میں تین سے بڑھ کر نو افراد پر مشتمل ہو گیا ہے اور ہفتہ وار دو گھنٹے ٹریننگ کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوچ کے مطابق: ’جب میں نے پہلی بار چھوٹے قد کے افراد پر مشتمل ٹیم کو ٹریننگ دینا شروع کی تو میرے اہل خانہ اور دوست حیران رہ گئے لیکن مجھے خوشی ہوئی کہ ان کے پاس عزم اور تکنیک ہے۔‘
ھیثم کی ٹیم نے حال ہی میں لبنان میں اپنے جیسے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر چھوٹے قد کے افراد کی پہلی قومی ٹیم بنائی ہے۔
غزہ کی گلیوں میں فٹ بال کھیلتے ہوئے 34 سالہ ھیثم السقا کو امید ہے کہ وہ ایک دن عرب اور بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں کھیلیں گے۔ اب انہیں لگتا ہے کہ وہ ان خوابوں کی تکمیل کے زیادہ قریب ہیں۔
انہوں نے کہا: ’میں نے اپنی پوری زندگی الاہلی اور ریال میڈرڈ میں موجود ان کھلاڑیوں جیسا بننے کا خواب دیکھا، جنہیں میں پسند کرتا ہوں۔ جب فلسطین کی نمائندگی کا وقت آیا تو یہ میرے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا اور میں اپنی پوری زندگی قومی یونیفارم پہننے کی خواہش کی ہے۔‘