آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی طلبی: عدالتوں کا عمل دخل کتنا؟

آرٹیکل 245 کے تحت فوج بلانے کی آئینی حدود کیا ہیں، عدالتوں کا کتنا عمل دخل ہو گا اور اس میں اور ایمرجنسی میں کیا فرق ہے؟

حکومت نے دو روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورتِ حال کے بعد پنجاب، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد میں فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سرکاری حکم نامے میں پاکستان کے آئین کی شق 245 کا حوالہ دیا گیا، جس کے تحت حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اندرونی یا بیرونی خطرے سے نمٹنے کے لیے سویلین انتظامیہ کی مدد کی خاطر فوج کو طلب کر سکتی ہے۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ فوجی دستوں کی تعداد کیا ہو گی، ان کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی اور انہیں کہاں کہاں تعینات کیا جائے گا۔ اس سوال کا جواب بھی آنا باقی ہے کہ کیا فوج صرف اہم عمارتوں کی سکیورٹی کے لیے مختص رہے گی یا سڑکوں اور گلی محلوں میں امن و امان کی خراب صورتِ حال سے نمٹنے میں اس کا کوئی کردار ہو گا؟

گذشتہ روز جاری ہونے والے ایک حکم نامے میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی، البتہ اس میں لکھا گیا ہے کہ فوجیوں اور اثاثوں کی اصل تعداد اور علاقوں کا تعین صوبائی حکومتیں جی ایچ کیو کے مشورے سے کریں گی۔

آرٹیکل 245 کہتا کیا ہے؟

آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا جا سکتا ہے۔

اس آرٹیکل کے تحت فوج کے فرائض متعین کیے گئے ہیں۔ اس شق کی چار ذیلی شقیں ہیں:

دستور کا باب دو مسلح افواج کے بارے میں ہے، جو شق 243 سے شروع ہوتا ہے۔ آگے چل کر شق 245 میں لکھا ہے:

  1. مسلح افواج، وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت، بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور قانون کے تابع شہری حکام کی امداد میں، جب ایسا کرنے کے لیے طلب کی جائیں، کام کریں گی۔
  2. شق 1 کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے جاری شدہ کسی ہدایت کے جواز کو کسی عدالت میں زیرِ اعتراض نہیں لایا جائے گا۔
  3. کوئی عدالت عالیہ کسی ایسے علاقے میں، جس میں پاکستان کی مسلح افواج فی الوقت آرٹیکل 245 کی تعمیل میں شہری حکام کی مدد کے لیے کام کر رہی ہوں، آرٹیکل 199 کے تحت کوئی اختیارِ سماعت استعمال نہیں کرے گی۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس شق کا اس دن سے عین قبل جس پر مسلح افواج نے شہری حکام کی مدد کے لیے کام کرنا شروع کیا ہو، کسی زیرِ سماعت کارروائی سے متعلق عدالت عالیہ کے اختیار سماعت کو متاثر کرنا متصور نہیں ہو گا۔
  4. شق 3 میں محولہ کسی علاقہ سے متعلق کوئی کارروائی جسے اس دن یا اس کے بعد دائر کیا گیا ہو، جبلکہ مسلح افواج نے شہری حکام کی مدد کے لے کام شروع کیا ہو اور جو کسی عدالتِ عالیہ میں زیرِ سماعت ہو، اس عرصے کے لیے معطل رہے گی، جس کے دوران مسلح افواج بایں طور کام کر رہی ہوں۔

آسان الفاظ میں شق 245 کے اہم نکات یہ ہیں:

  • فوج بلانے کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا
  • فوج کی موجودگی کے دوران ہونے والے اقدامات کو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا
  • دوسرے معاملات میں ہائی کورٹس کام کرتی رہیں گی

عدالتوں کو کہاں تک اختیارات حاصل رہیں گے؟

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 245 کے عمل میں لانے کے بعد ’ہائی کورٹ کے اختیارات ضرور معطل ہو جاتے ہیں مگر صرف اس آرٹیکل سے متعلق۔ وہ اس حکم نامے کو چیلنج نہیں کر سکتی، البتہ اس کی باقی روزمرہ کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں اور ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ بھی فوج کو طلب کرنے کے فیصلے کو مسترد نہیں کر سکتی، البتہ اگر اسی دوران انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہو تو سپریم کورٹ 3/184 کے تحت اس کے خلاف حرکت میں آ سکتی ہے۔‘

ممتاز ماہرِ قانون اور سربراہ شعبہ قانون قائد اعظم یونیورسٹی عزیز الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماضی میں بھی متعدد بار حکومتیں اسی شق کے تحت فوج کو بلاتی رہی ہیں، ’مگر اس بار بظاہر حالات اتنے خراب نہیں لگتے کہ فوج کو طلب کر لیا جائے، کیوں کہ حکومت کے پاس پولیس بڑی تعداد میں موجود ہے، رینجرز کی مدد لی جا سکتی ہے، دوسرے ادارے موجود ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اس فیصلے کی نوعیت علامتی ہے اور اس کا مطلب یہ پیغام دینا ہے کہ ادارے ایک پیج پر ہیں۔‘

شق 245 اور ایمرجنسی میں فرق

جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ ایمرجنسی کا نفاذ بہت سنگین معاملہ ہے اور اسے حکومتیں بہت سوچ سمجھ کر لاگو کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’شق 245 اور ایمرجنسی کے نفاذ میں فرق یہ ہے کہ شق 245 کے تحت فوج بلانے کا حکومت کو کوئی حساب نہیں دینا پڑتا، لیکن ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ایک مخصوص مدت کے اندر اندر حکومت کو اسمبلی میں آ کر اس عمل کی توثیق کروانا پڑتی ہے۔

عزیز الرحمٰن کے مطابق ایمرجنسی کے دوران پورا آئین ہی معطل ہو جاتا ہے، اس لیے وہ بالکل مختلف عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ایمرجنسی کا تعلق لازمی طور پر امن و امان سے نہیں ہوتا۔ 1999 میں ملک کے معاشی حالات کے پیشِ نظر بھی ہنگامی صورتِ حال نافذ کر دی گئی تھی، جب جنرل مشرف نے 2007 میں ججوں کے اختیارات معطل کرنے کے لیے ایمرجنسی لگا دی تھی۔‘

ماضی میں کب کب فوج بلائی جاتی رہی ہے؟

پاکستان کی سیاسی حکومتیں وقتاً فوقتاً ہنگامی حالات اور امن و امان کی صورتِ حال کے پیش نظر فوج کو سول اداروں کی مدد کے لیے طلب کرتی رہی ہیں۔

عمران خان کی حکومت نے 2021 میں ملک میں لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کروانے کے لیے اسی آرٹیکل کے تحت فوج بلا لی تھی۔ وفاقی حکومت کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ فوج پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت تین صوبوں میں سول اداروں کے ہمراہ خدمات انجام دے گی۔

اس سے قبل نومبر 2017 میں مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے کے پیش نظر فوج کو وفاقی دارالحکومت کے حساس مقامات کی حفاظت کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ اس وقت کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے حکم پر کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ نواز شریف کی حکومت نے جولائی 2014 میں عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں کے دوران وفاقی دارالحکومت میں فوج کو تعینات کیا تھا۔

1998 میں بھی نواز شریف کی حکومت نے آرٹیکل 245 کا سہارا لے کر کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال کو بحال کرنے کے لیے فوج کو بلایا تھا۔

سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے 1977 میں لاہور میں حکومت مخالف احتجاج کو روکنے کے لیے بھی آرٹیکل 245 کا سہارا لے کر فوج کو طلب کیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان