ادیب اور لکھاری اپنے مشاہدے کو الفاظ میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت اور دورانِ ہجرت لاکھوں انسانوں پر جو قیامتیں گزریں پاک و ہند کے نامور اردو مصنفین نے ان کو اپنا موضوع بنایا اور انسان ہی کے ہاتھوں انسانیت کی پامالی کے دکھ بیان کیے۔
اردو افسانے کے سب سے معتبر نام سعادت حسن منٹو نے اپنی تحریروں کے مجموعے ’سیاہ حاشیے‘ میں ظلم و ناانصافی سے عبارت اس ماحول پر مختصر لیکن انتہائی موثر کہانیاں پیش کیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں ’ہرنام کور، ٹھنڈا گوشت اور گورمکھ سنگھ کی وصیت‘ میں بھی اپنے کرداروں کے ذریعے انسانی سفاکیت کی روداد بیان کیں۔
تقسیم کے پس منظر میں لکھا ان کا افسانہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ ایک کلاسیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ منٹو نے ’آخری سیلوٹ، ٹیٹوال کا کتا اور یزید‘ کے عنوان سے تین افسانے کشمیر کے تنازع پر بھی لکھے۔ فسادات کے موضوع پر احمد ندیم قاسمی، شوکت صدیقی، ڈاکٹر انور سجاد، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، راجندر سنگھ بیدی اور کرشن چندر نے بھی طبع آزمائی کی اور ’کفن دفن، فساد، اندھیرا اور اندھیرا، ہفتے کی شام، تانتیا، نہ مرنے والا اور عائشہ آگئی، گڈریا، لاجونتی، پشاور ایکسپریس، اندھے، امرتسر اور لال باغ‘ جیسے تکلیف دہ لیکن سچائی پر مبنی افسانے تخلیق کیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہر دور میں انسانی وحشت کا نشانہ بننے والی حوا کی بیٹی کوتقسیمِ ہند کے موقع پر بھی پامال کیا گیا اور غیرت مند مردوں نے لاکھوں مسلمان، سکھ اور ہندو عورتوں کو ہر ہر طرح سے اپنی وحشت کا نشانہ بنا کر مردانگی کے جشن منائے۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں ’کھول دو، شریفن، ڈارلنگ، عزت کے لیے اور بسم اللہ‘ میں ایسی خواتین کے کرب کو اجاگر کیا۔ منٹو، کرشن چندر اور بلونت سنگھ نے نفرت کی اس فضا میں سرحد کی دونوں جانب انسانی قدروں کو زندہ رکھنے والے کرداروں کا بھی مشاہدہ کیا اور ان پر ’سہائے، رام کھلاون، ایک طوائف کا خط، کالے کوس اور تعمیر‘ جیسے اعلیٰ افسانے تحریر کیے۔ اسی موضوع پر احمد ندیم قاسمی نے ’پرمیشر سنگھ‘ جبکہ عصمت چغتائی نے ’جڑیں‘ کے عنوان سے لافانی افسانوں کو وجود بخشا۔
آزادی کی چاہ میں اپنا سب کچھ لٹا دینے والوں کے لیے ماضی کی محبت میں الجھے رہنا بھی ایک فطری بات تھی۔ عظیم افسانہ نگار انتظار حسین نے افسانوی مجموعوں ’شہر افسوس‘ اور ’گلی کوچے‘ میں اس پہلو کو مشق سخن بنایا۔ اس حوالے سے ان کے افسانوں ’استاد‘ اور ’قیوما کی دکان‘ کو خاص مقام حاصل ہے۔ اسی موضوع پر قرت العین حیدر کے افسانوں ’جلاوطن‘ اور ’پت جھڑ کی آواز‘ کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔
قد آور ادیبوں نے افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ ناول نویسی کے ذریعے بھی آزادی کی خوشی میں گھل جانے والی کڑواہٹوں کو بیان کیا۔ اس حوالے سے عبداللہ حسین کا ناول ’اداس نسلیں‘ شہرہ آفاق ہے۔ قرت العین حیدر نے بھی اپنے عہد ساز ناول ’آگ کا دریا‘ میں ہندوستان کی قدیم تاریخ کے ساتھ ساتھ قیام پاکستان سے وابستہ انسانی المیوں کی داستان رقم کی۔ انہوں نے اپنے پہلے ناول ’میرے بھی صنم خانے‘ میں متحدہ ہندوستان کی سیاسی صورتحال کے ساتھ ساتھ تقسیم کے نتیجے میں بعض متمول خاندانوں کے زوال کی کہانی پیش کی۔
فسادات، قتل وغارت اور خواتین کی عصمت دری کے حساس موضوع پر کرشن چندر کا مختصر ناول ’غدار‘ بھی اردو ادب میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ عصمت چغتائی بھی منٹو کی طرح کسی قسم کی ملمع سازی کے بغیر حقیقت بیان کرنے پر یقین رکھتی تھیں۔ انہوں نے اپنے ناول ’معصومہ‘ میں ہندوستان سے اٹھ کر پاکستان آ بسنے والوں کی معاشی مشکلات کا احوال لکھا۔ ان کے اس ناول کی مرکزی کردار ایک نوجوان لڑکی کو غربت کے ہاتھوں جسم فروشی کا پیشہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔
آزادی کے بعد ’پاک انسانوں‘ کے وطن میں فروغ پاتی طبقاتی تقسیم، پناہ گزین کیمپوں میں پائی جانے والی بے حسی، جائیداد کے جعلی دعوے کرنے کی روش اور دوسری بدعنوانیاں بھی ادیب اور افسانہ نگاروں سے اوجھل نہ رہیں اور انہوں نے ان تمام سماجی برائیوں پر بھی کڑی تنقید کی۔ اس موضوع پر شوکت صدیقی کا ناول ’خدا کی بستی‘ خدیجہ مستور کا ’زمین، آنگن‘ اور قدرت اللہ شہاب کا ناولٹ ’یاخدا‘ نمایاں ہیں۔
تقسیم ہند اور ہجرت کے موضوع پر لکھے جانے والے بہت سے اردو افسانوں اور ناولوں میں سے چند ایک کے مختصر جائزے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ مصنفین نے اس دور میں جنم لینے والے انسانی المیوں کی چبھن دل میں لیے جو کہانیاں تخلیق کیں وہ اردو ادب کے لیے ایک بیش قیمت سرمائے کے ساتھ ساتھ خطے کی سیاسی، معاشی اور سماجی تاریخ پر مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔