سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ’ہمیں سیاست کے بارے میں نہیں معلوم اور نہ جانا چاہتے ہیں۔ میں نے کل دیکھا کہ موٹر وے خالی پڑا ہے۔ معشیت کی حالت خراب ہو رہی ہے۔ آج دیکھ لیں، حکومت بے بس ہے، لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں، ملکی اداروں اور اثاثوں کو جلایا جا رہا ہے، تنصیبات کو آگ لگائی جا رہی ہے۔‘
ملک کے اعلی ترین جج نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عدالت نے صرف آئین نہیں حالات کو بھی دیکھا ہے۔ ’باہر کے حالات دیکھ رہے ہیں اس لیے سماعت جلدی نہیں رکھنا چاہتے۔ لوگوں کی سرکاری اور نجی املاک کا نقصان ہو رہا ہے، باہر جا کر دیکھیں کیا ہو رہا ہے، امن و امان کو برقرار رکھنے میں حصہ ڈالیں۔‘
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پیر کو تین رکنی بنچ نے کیس سماعت کی۔ الیکشن کمیشن نے 4 اپریل کےفیصلے پرنظرثانی درخواست دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ نے 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ مشکل وقت میں صبر کرنا ہوتا ہے نہ کہ جھگڑا، تین چار دن دیکھیں گے کیا ہو رہا ہے، ہم اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے لیکن اداروں کا احترام کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ آئین میں موجود بنیادی حقوق پر کیسے عمل ہوگا۔ ہم یہاں عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا تو لوگ خوش ہوں گے۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'اٹارنی جنرل صاحب مذاکرات بحال کیوں نہیں کرتے، اس وقت بال اٹارنی جنرل آپ کی کورٹ میں ہے۔'
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’بہت کوشش کرکے فریقین کو میز پر لائے تھے، فریقین میں کافی حد تک اتفاق بھی ہو چکا تھا۔'
چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ 'علی ظفر صاحب یہاں بتائیں گے اور اپنی قیادت کو آگاہ کریں گے کہ پولرائزڈ معاشرے میں انتخابات کیسے ہوں گے۔ اور اگر ہوں گے تو نتائج کون تسلیم کرے گا؟ آپ کو ہائی مورال گراؤنڈ پیدا کرنا ہوگا، 90 دن میں انتخابات بنیادی معاملہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ 'الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے دائرہ کار پر سوال اٹھایا ہے، آپ کو چاہیے کہ مذاکرات کے عمل کو دوبارہ دیکھیں۔'
وکیل علی ظفر نے کہا کہ تحریک انصاف کی پوری قیادت گرفتار ہے ایسے ماحول میں کیا مذاکرات ہوسکتے ہیں؟ ’اب مذاکرات نہیں صرف آئین پر عمل درآمد چاہتے ہیں۔ اس کیس میں جو دلائل دوں گا وہ سیاسی نہیں ہوں گے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ گولیوں سے زخمی ہوئے، اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کیا، الیکشن جمہوریت کی بنیاد ہیں، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ حکومت اور اپوزیشن سے کہتا ہوں اعلیٰ اخلاقی معیار خود تلاش کریں، آئین پر عمل درآمد میرا فرض ہے جو ادا کرتا رہوں گا، مزید کہا کہ باہر جو ماحول ہے اس میں آئین پر عمل درآمد کون کرائے گا؟ کسی ایک فریق کا اخلاقی معیار ہوتا تو دوسرے کو الزام دیتے۔'
چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ فنڈز اور سکیورٹی کا مسئلہ پہلے الیکشن کمیشن نے بتایا تھا۔ آج تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیا ہے، نظرثانی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے پنجاب، خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرلز کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کو دلائل کے لیے کتنا وقت چاہیے۔ وکیل سجیل سواتی نے عدالت سے کہا کہ انہیں دلائل کے لیے تین سےچار گھنٹے چاہیے۔
اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ ایک نظرثانی درخواست ہے اس میں تیاری کے لیے کتنا وقت چاہیے؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس معاملے میں دو احکامات ہیں۔ نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے، نظرثانی درخواست میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے۔’14 مئی گزر چکا ہے، آئین کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس وقت ملک کی آدھی آبادی بغیر نمائندگی کے ہے اور عدالت اس وقت اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے حکم جاری کرے۔
سیکرٹری سپریم کورٹ بار عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ سپریم کورٹ بار اور وکلا عدالت کے ساتھ ہیں، عدلیہ کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف تھا، وسائل دیں انتخابات کرا دیں گے۔ ’اب الیکشن کمیشن نے پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ کمیشن نے پہلے یہ موقف اپنایا ہی نہیں تھا۔ جو نکات پہلے نہیں اٹھائے کیا وہ اب اٹھائے جا سکتے ہیں، مناسب ہو گا یہ نکات کسی اور کو اٹھانے دیں۔‘ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالتی دائرہ اختیار کا نکتہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں اٹھایا تھا وفاقی حکومت یہ نکتہ اٹھا سکتی تھی لیکن انہوں نے نظرثانی دائر ہی نہیں کی، الیکشن کمیشن کی درخواست میں اچھے نکات ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست قابل سماعت ہونے پر کمیشن کا موقف سننا چاہتے ہیں، صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر کے سنیں گے، دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کریں گے، عدالتی حکم پر عمل درآمد کرایا جائے۔ عدالت نے جو حکم دیا ہے وہ حتمی ہے، بعض نکات غور طلب ہیں ان پر فیصلہ کریں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں ہوتا، آئینی مقدمات میں دائرہ اختیار محدود نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 'یہ بھی مدنظر رکھیں گے کہ نظرثانی میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے، فیصلہ حتمی ہو جائے پھر عمل درآمد کروائیں گے۔ ہمارے پاس کل اہم کیس کی سماعت ہے کیوں نہ کیس اگلے ہفتے منگل تک ملتوی کریں۔ ہم کیس میں نوٹسز کر رہے ہیں۔'
سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 23 مئی تک ملتوی کر دی۔