پاکستان کی عدالت عظمٰی میں مقدمات کی سماعت کے دوران چیف جسٹس یا دیگر ججوں کے بعض ریمارکس اکثر خبروں کی زینت بنتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا ایک جملہ ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ بھی موضوع بحث بنا بلکہ متنازع ہوا۔
احتساب کے قومی ادارے نیب کے زیر حراست سابق وزیراعظم عمران خان کو گذشتہ دنوں جب سپریم کورٹ کے حکم پر عدالت میں پیش کیا گیا اور وہ روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ان کو دیکھ کر کہا کہ ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔‘
خوشی کے اظہار والے یہ الفاظ انہیں کچھ مہنگے پڑے کیوں کہ حزب مخالف کی جماعتوں کی جانب سے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ عمران خان جن کو مالی بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے انہیں یوں عدالت میں خوش آمدید کہنا کسی طور مناسب نہیں۔
سپریم کورٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے کے دوران منگل کی شب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل رحمٰن نے اپنی تقریر میں بھی چیف جسٹس کے اسی جملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے منصف کے سامنے اگر کسی کا مقدمہ ہو تو کوئی ایسا اشارہ بھی نا کرے جسے جانبداری کا شائبہ ہو۔
عموماً ججوں کی جانب سے ایسی تنقید پر وضاحت سامنے نہیں آتی لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک سول مقدمے میں پیش ہونے والے وکیل اصغر سبزواری کو دیکھ کر بھی خوشی کے اظہار والے الفاظ دہراے۔ تاہم اکثر صحافی اس جملے کی ادائیگی کے اگلے دن سے وضاحت کی توقع کر رہے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا لیکن ’مجھے گڈ ٹو سی یو‘ کہنے کی عادت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر ایک کو احترام دیتے ہیں، ادب و اخلاق تو سب کے لیے ضروری ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ادب و اخلاق کے بغیر مزہ نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ ہر کسی کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہر ہوئی‘ اور ان کے بقول ’میں ہر ایک کو احترام دیتا ہوں۔ ادب واخلاق تو سب کے لیے ضروری ہے۔‘
اخلاقیات اور احترام اپنی جگہ لیکن منصب اور حالات کے تقاضوں کو بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
نیب ترامیم کیس میں بھی چیف جسٹس نے وکیل کے سامنے اپنا موقف کچھ اس طرح دوہرایا کہ ’ایک مرتبہ پھر کہہ رہا ہوں آپ کو دیکھ کر اچھا لگا۔
حکمران اتحاد میں شامل بیشتر جماعتوں کے قائدین کی جانب سے یہ الزام عائد بھی کیا جاتا رہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ عدالتوں میں روا رکھے جانے والا رویہ ان کے بقول ’لاڈلے‘ جیسا ہے۔
لیکن عمران خان یہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف مقدمات سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے ہیں اور انہیں ان مقدمات کی کمزور صحت کی وجہ سے مدد مل رہی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو گذشتہ سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے منصب ہٹایا گیا تھا اور اس کے بعد سے ان کے خلاف درجنوں مقدمات قائم کیے گئے جب کہ انہیں گرفتار کرنے کی بھی کئی کوششیں کی گئیں لیکن ان میں پولیس کو کامیابی نا ملی۔
البتہ گذشتہ ہفتے عمران خان جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لیے اسلام آباد پہنچے تھے تو انھیں عدالت کے احاطے سے اس وقت گرفتار کیا جب کہ ان کے اردگرد ان کے حامیوں کا جھرمٹ نہیں تھا۔
لیکن رینجرز کے اہلکار جس طرح عمران خان کو گرفتاری کے بعد لے کر گئے میڈیا پر ان مناظر کے سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے بھر پور تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ عمران خان کو گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا جو ان کے بقول کسی صورت بھی ملک کی ایک بڑی جماعت اور سابق وزیراعظم اس طرح گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست کی سماعت میں سابق وزیراعظم کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا جس پر اپوزیشن جماعتیں سیخ پا ہوئیں اور اس ہفتے سپریم کورٹ کی عمارت کے عین سامنے ایک احتجاجی دھرنا بھی کر ڈالا۔