ایک نئی تحقیق کے مطابق گذشتہ سال انٹرنیٹ کے پورے ٹریفک میں تقریباً آدھا بوٹس سے آیا تھا۔
سائبرسکیورٹی فرم امپیروا کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 میں خودکار اور مشکوک ویب سرگرمی میں نمایاں اضافہ ہوا، انسانی ٹریفک کا تناسب آٹھ سالوں میں اپنی کم ترین سطح تک گر گیا۔
ادارے نے کہا کہ 2013 میں اس رحجان کی نگرانی کے آغاز کے بعد سے نام نہاد ’بیڈ بوٹس‘ کی تعداد بلند ترین تھی۔
محققین نے دعویٰ کیا کہ اوپن اے آئی کمپنی کے ’چیٹ جی پی ٹی‘ اور گوگل کے ’بارڈ‘ جیسی مصنوعی ذہانت کے ٹولز کی آمد سے اس سال بوٹس کی سرگرمی میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
امپروا کے ایک سینیئر نائب صدر کارل ٹریبس نے کہا کہ ’2013 کے بعد سے بوٹس میں تیزی اضافہ ہوا ہے لیکن مصنوعی ذہانت کی آمد کے ساتھ، ٹیکنالوجی اگلے 10 سالوں میں اور بھی زیادہ تشویش ناک رفتار سے اضافہ ہو گا۔
’سائبر جرائم پیشہ افراد جدید آٹومیشن کے ساتھ اے پی آئی اینڈ پوائنٹس اور ایپلی کیشن بزنس پر حملہ کرنے پر اپنی توجہ بڑھائیں گے۔ نتیجتاً، آنے والے برسوں میں برے بوٹس سے وابستہ کاروباری خلل اور مالی اثرات نمایاں طور پر بڑھ جائیں گے۔‘
بیڈ بوٹ سرگرمی میں سپیم سے لے کر ای میل ان باکسز کو بند کرنے والے جدید نظام تک کچھ بھی شامل ہو سکتا ہے جو لوگوں کے ای میلز یا آن لائن اکاؤنٹس کو ہیک کرنے کے لیے حملہ کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ بوٹس سکیورٹی سافٹ ویئر کے سے بچنے کے لیے انسانی طرز عمل کی نقل بھی کرتے ہیں۔
رپورٹ میں ایک اور تشویش ناک رجحان کا ذکر کیا گیا ہے کہ جنگ میں استعمال ہونے والے بوٹس میں اضافہ ہوا ہے، 2022 کے آغاز میں یوکرینی ویب ایپلی کیشنز کو نشانہ بنانے والے خودکار حملے 145 فیصد بڑھ گئے ہیں۔
یہ ممکنہ طور پر توانائی اور ٹیلی کام سے لے کر نقل و حمل اور مالیاتی شعبوں تک ملک کے اہم بنیادی ڈھانچے میں خلل ڈالنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔
ٹریبیز نے کہا: ’ہر ادارے کو، چاہے وہ کسی بھی حجم یا صنعت کا ہو، انٹرنیٹ پر بیڈ بوٹس کے بڑھتے ہوئے حجم کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے۔
’سال بہ سال بوٹ ٹریفک کا تناسب بڑھ رہا ہے اور مشکوک آٹومیشن کی وجہ سے سامنے آنے والی رکاوٹوں کے نتیجے میں برانڈ کی ساکھ کے مسائل سے لے کر آن لائن فروخت میں کمی اور ویب ایپلی کیشنز، موبائل ایپس اور اے پی آئیز کے لیے سکیورٹی خطرات تک ٹھوس کاروباری خطرات پیدا ہوتے ہیں۔‘
© The Independent