لاہور سے تعلق رکھنے والے عمر صفدر یوٹیوب اور فیس بک پر ویڈیوز لگا کر ڈالرز کماتے ہیں۔ ان کے مختلف پیجز اور چینلز ہیں۔ لیکن پچھلے تین دن سے وہ کچھ بھی اپلوڈ نہیں کر پا رہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ویڈیوز نہ لگنے کی وجہ سے پیجز اور چینل کی ریٹنگ کم ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔‘
اسی طرح کراچی سے عون مزمل ایک طالب علم اور فری لانسر ہیں۔ وہ فائیور اور اپ ورک پر کام کرتے ہیں۔ انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’انٹرنیٹ بند رہنے سے فائیور نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جہاں انٹرنیٹ کے مسائل رہتے ہیں۔ آپ یہ سمجھیں کہ ایک طرح سے پاکستان کو ڈی لسٹ کر دیا گیا ہے۔ اس سے پاکستان کی رینکنگ گری ہے، آن لائن آرڈرز میں کمی آئی ہے جس سے ڈالرز میں حاصل ہونے والی آمدن میں کمی واقع ہو گی۔‘
گاڑیوں کے حوالے سے مشہور ایپ پاک ویلز کے ایک سیلز مین نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب سے انٹرنیٹ بند ہوا ہے کوئی فیچر ایڈ نہیں آیا ہے اور نہ ہی انسپیکشن آڈر آ رہے ہیں۔ ہمارے روزانہ کے سیلز ٹارگٹس حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔‘
اس کے علاوہ سب سے کم آمدن والا طبقہ بھی متاثر ہوا ہے۔ ان میں فوڈ ڈیلوری، گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی سواری کی ایپلی کیشنز، بائیکیا، اوبر اور ان ڈرائیو ایپلی کیشنز کے ذریعے روزگار کمانے والے شامل ہیں۔
انٹرنیٹ کی بندش سے متاثر ہونے والے ان افراد کا کہنا ہے کہ ’ایک طرف ملک میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور دوسری طرف حکومت نے ہمارا روزگار بھی بند کر دیا ہے۔ سرکار ہمیں روزگار تو دے نہیں سکتی، الٹا ہمارے پر کاٹ رہی ہے۔ اگر حکومت نے جلد انٹرنیٹ بحال نہیں کیا تو ہم بھی سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔‘
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن (پاشا) کے ڈائریکٹر ذوہیب خان نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انٹرنیٹ بندش سے پاکستان کو ہر روز تقریبا 50 سے 60 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ملکی سکیورٹی اہم ہے لیکن انٹرنیٹ آئی ٹی انڈسٹری کی لائف لائن ہے۔ اسے انٹرنیٹ بندش سے مستشنی کیا جائے۔ پاشا کے پاس سافٹ ویئر ڈویپلرز کا ڈیٹا ہے۔ سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کے پاس فری لانسرز کاُ ڈیٹا ہے۔ حکومت ہم سے مدد لے سکتی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’پاکستان کا برینڈ امیج خراب ہوا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں ہماری گروتھ 42 فیصد تھی۔ اس سال مارچ میں گروتھ صرف 0.8 فیصد رہ گئی ہے۔ اس سال 3.2 ارب ڈالرز ایکسپورٹ ٹارگٹ تھا جو پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک مجھے فون کر کے بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ جبکہ حکومت جانتی ہے کہ یہی سیکٹر پاکستان کی ایکسپورٹس بڑھا سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کمپنیوں نے لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کے لیے انٹرنیٹ ڈیوائسز دی تھیں۔ اب ان کا بھی فائدہ نہیں رہا۔
’تھری اور فور جی بند ہونے سے سارا دباؤ براڈ بینڈ پر آ گیا ہے جس سے وہ بھی سست ہو گیا ہے۔ پاکستان میں جب سے ورک فرام ہوم کا تصور پروان چڑھا ہے انٹرنیٹ کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ بند ہونے سے اس اپروچ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔‘
اس حوالے سے پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کے نمائندے شعیب اسلم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان مخالف قوتیں پہلے سے ہی منفی پروپیگنڈا کے انتظار میں رہتی ہیں۔ فائیور کو اپنی ویب سائٹ پر پاکستان میں انٹرنیٹ کے مسئلے کا ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انٹرنیشنل کلائنٹس جو آرڈر دیتے ہے اگر وہ بروقت پورے نہ ہوں تو پھر اس کا ذکر ہونا چاہیے۔ اگر کسی کے گھر میں انٹرنیٹ کا مسئلہ ہو تو پلیٹ فارم کو اس سے پرابلم نہیں ہونی چاہیے۔‘
اس حوالے سے پاکستان کے پہلے فری لانسر حشام سرور نے انڈیپینڈٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر صرف تقریبا سوا چار ارب ڈالرز کے قریب رہ گئے ہیں۔ ملک کو زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی اشد ضرورت ہے اور حکومت نے پچھلے تین دن سے ملک میں انٹرنیٹ تقریبا بند کر رکھا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فری لانسنگ کے حوالے سے پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ فری لانسر مارکیٹ میں سب سے بڑا نقصان بری شہرت کو سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایک مرتبہ انٹرنیشنل کلائنٹ کو یہ احساس ہو جائے کہ جس ملک کے ساتھ میں کام کر رہا ہوں وہ مجھے وقت پر ڈیلیوری نہیں دے سکتا تو کلائنٹ فورا کسی اور سے کام کروا لیتا ہے اور کئی سالوں کی محنت سے بنائے گئے اکاونٹس کی ریٹنگ گر جاتی ہے۔ آپ یہ سمجھیں کہ جیسے چلتی چلائی دکان کو کسی نے آگ لگا دی ہو۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق ’ابھی تک بائیکیا، کریم اور فوڈپانڈا سے منسلک ایک لاکھ 30 ہزار، اوبر اور ان ڈرائیو کے 30 ہزار، ہوم شیف اور فری لانسنگ سے منسلک تقریبا پانچ لاکھ لوگ بےروزگار ہو چکے ہیں۔‘
انٹرنیٹ سینسر شپ اور حقوق پر کام کرنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کے مطابق: ’انٹرنیٹ کا نہ ہونا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 18 اور 19 میں معلومات تک رسائی، رائے کی آزادی اور نقل و حرکت کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’اس وقت تقریبا 12 کروڑ لوگ موبائل انٹرنیٹ سے محروم ہیں اور تین روز میں تقریبا 52 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔‘
موبائل براڈ بینڈ کے ایک ادارے میں کام کرنے والی ڈائریکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’انٹرنیٹ بندش سے ٹیلی کام سیکٹر اور سرکار کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ٹیلی کام کمپنیوں کو ایک دن میں 82 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے اور حکومت کو ٹیکس آمدن کی مد میں تقریبا 28 کروڑ 70 لاکھ کا نقصان ہوا ہے۔‘
حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ حکومت کی حکمت عملی ناکام رہی ہے۔ انٹرنیٹ بند کرنے کا مقصد دنگے فساد ہونے سے روکنا تھا۔ وہ مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکا ایک طرف ملکی املاک کو اربوں روپوں کا نقصان ہو گیا اور دوسری طرف آئی ٹی ایکسپورٹ اور آن لائن کاروبار کرنے والوں کے کاروبار بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ انٹرنیٹ فوری بحال کرے تا کہ بے یقینی کی کیفیت کم ہو اور ملک مزید معاشی نقصان سے بچ سکے۔