ان کی اونچی فرنٹ کِک حریف کو آسانی سے دھول چٹا سکتی تھی اور انہیں کسی بھی مقابلے میں تمغہ جتوا سکتی تھی لیکن افغانستان میں تائیکوانڈو چیمپیئن مرضیہ حمیدی کے خوابوں کو طالبان نے صرف اس لیے کہ وہ خاتون ہیں چکنا چور کر دیا اور انہیں ملک سے نکال دیا۔
طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے افغانستان کی قومی تائیکوانڈو ٹیم میں ملک کی نمائندگی کرنے والی حمیدی کہتی ہیں کہ ’طالبان نے افغانستان میں بہت سے مردوں کو یہ باور کرایا ہے کہ خواتین چیمپئن نہیں ہو سکتیں۔ جب میں تربیت کے دوران اپنی ٹانگ فضا میں بلند کرتی ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا کنوارہ پن کھو دیا۔ یہ بری چیز ہے۔‘
حمیدی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’یہ باتیں میرے لیے تکلیف کا باعث ہیں۔ مجھے مارنے کی ضرورت نہیں، میرے لیے یہ ذہنی تشدد کے لیے کافی ہے۔‘
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان سے فرار ہونے والی 21 سالہ حمیدی کا کہنا ہے کہ اگست 2021 کے بعد سے ان کے سینے غصہ طوفان کی طرح ابل رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ طالبان جنگجو کابل کے علاقے کارتہ چھار میں واقع ان کے گھر کے باہر گلیوں میں گشت کر رہے تھے اور وہ انہیں اپنے گھر کی کھڑکی سے دیکھ سکتی تھیں۔ ان کے والد ایک کام سے واپس آئے اور ان سے کہا کہ ’وہ پہنچ چکے ہیں۔‘
انہیں والد کی بات پر بالکل یقین نہیں آیا۔ اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کہ ان کے پڑوس میں کیا ہو رہا ہے، اس وقت 19 سالہ حمیدی نے اپنی جسامت سے تین گنا بڑا برقع اوڑھا اور ایک دوست کو ساتھ لے کر اپنے پسندیدہ کیفے میں گئیں۔
حمیدی کے بقول: ’ ہم نے صرف طالبان کے مسلح جنگجوؤں کو ریستوران کے اندر اور اپنے گھر کے باہر ہر کونے کھدرے پر نظر رکھے ہوئے دیکھا۔ اس قسم کے لوگ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ لمبی داڑھی والے لوگ جنہوں نے اسلحہ اٹھا رکھا تھا۔ میں نے اس کے بعد کسی بھی خاتون کو گھر سے باہر عوامی مقامات پر نہیں دیکھا۔‘
حمیدی ہرات اور کابل کے ہوائی اڈوں پر ابتدائی افراتفری کے کم ہونے کا انتظار کرتی رہیں تاکہ وہ ’جابرانہ‘ حکومت سے بچ سکیں۔ ان کے خاندان نے کابل میں اپنا گھر تین بار تبدیل کیا۔
بالآخر فرانس نے انہیں نومبر میں تین ہزار دیگر لوگوں کے ساتھ نکالا جس سے وہ ایک بار پھر پناہ گزین بن گئیں۔ یہ ایک ایسا لیبل ہے جو پیدائش کے بعد سے ان کا پیچھا کر رہا ہے۔
وہ 2002 میں ایران میں جلاوطنی کے دوران پیدا ہوئیں اور 2019 میں اپنے وطن واپس آئی تھیں۔ وہ صرف دو سال تک وہاں رہ کر دوبارہ بھاگنے پر مجبور ہو گئیں۔
حمیدی اب 29 مئی کو آذربائیجان کے درالحکومت باکو میں ہونے والی عالمی تائیکوانڈو چیمپئن شپ میں پناہ گزینوں کی ٹیم کا حصہ بن کر شرکت کریں گی۔
حمیدی کہتی ہیں کہ ’میرا دل ٹوٹ جاتا ہے کہ میں افغانستان کے پرچم کے ساتھ عالمی سطح پر نمائندگی نہیں کر سکتی۔ اس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے کیوں کہ یہ میرا خواب تھا کہ میں اپنی قومی ٹیم کے ساتھ عالمی چیمپیئن شپ میں حصہ لوں لیکن میں اسے اپنے، اپنے ملک اور اپنی خواتین کے لیے آواز اٹھانے کا ایک موقع سمجھتی ہوں اور اسی ملک کے کچھ لوگ میرے حجاب نہ لینے کی حمایت نہیں کریں گے۔‘
’اس کے باوجود میں ان کی نمائندگی کروں گی‘
ان کا مقابلہ 57 کلوگرام کی کیٹگری میں دنیا بھر کے تائیکوانڈو کھلاڑیوں سے ہوگا۔ وہ اپنے وطن کے نام سے محروم ہوں گی۔ ان کے والدین اور خاندان کے لوگ بھی ان کے ساتھ نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کابل میں اپنی سپورٹس فیڈریشن کو ختم ہوتے اور ٹیم کے دیگر ارکان کو طالبان کے دور حکومت میں غائب ہوتے ہوئے دیکھا۔
اگر وہ طالبان کی زیر قیادت افغانستان کی نمائندگی کرنا چاہتیں تو بھی ’سخت گیر‘ حکومت کی ’جابرانہ صنفی پالیسیوں‘ نے انہیں ٹیم سے محروم کر دیا ہوتا۔ افغانستان اس سال عالمی چیمپئن شپ میں مقابلہ کرنے کے لیے صرف مرد حضرات کو بھیجے گا۔
حمیدی کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں صرف لڑکوں کو تائیکوانڈو کی تربیت لینے اور صرف انہیں باکو آنے کی اجازت ہے۔ میں ان لڑکوں اور مردوں کو دیکھوں گی جنہوں نے چیمپئن شپ کے لیے تربیت حاصل کی۔‘
حمیدی نے مزید کہا کہ طالبان جب تک اقتدار میں ہیں وہ خواتین کو چیمپئن شپ میں کبھی نہیں بھیجیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر طالبان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی بھی ہوئی تو وہ کبھی بھی طالبان حکومت کی نمائندگی نہیں کریں گی۔
حمیدی کے بقول: ’میرے نزدیک وہ ’شدت سپندوں گردوں‘ کا گروہ ہیں۔ ان کی وجہ سے مجھے اپنی زندگی پھر سے شروع کرنی پڑی۔ مجھے اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔ میں اکیلی ہوں۔ میں نے اپنا گھر کھو دیا اور میں نے ملک میں ہونے والی جنگ میں بہت سے لوگوں کو کھو دیا۔ میں اب طالبان کو دکھانا چاہتی ہوں کہ پناہ گزین اتنے کمزور نہیں ہیں جتنا انہیں سمجھا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حمیدی کا کہنا ہے کہ ان کے ملک پر طالبان کے قبضے سے لوگ ذہنی طور پر اتنا ہی زیادہ متاثر ہوئے جتنا کوئی بھی کسی جنگ سے ہو سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کبھی کبھی میں سوچوں میں گم ہو جاتی ہوں اور میرا دماغ واپس افغانستان پہنچ جاتا ہے۔ میں بیلجیم میں طالبان کی وجہ سے اپنا مقابلہ ہار گئی جو کابل سے فرار ہونے کے بعد میرا پہلا مقابلہ تھا۔ میں افسردہ تھی اور جب میں اس احساس سے دوچار ہوتی ہوں تو میری ٹانگوں میں اور میرے جسم میں اتنی توانائی نہیں ہوتی کہ میں لڑ سکوں اور اسے ایک کک جتنا بلند کر سکوں۔‘
’میرے کوچ نے مجھ سے پوچھا کہ ’آپ کو کیا ہوا ہے؟ لیکن میں اپنی ذہنی لڑائی کسی اور شخص کو نہیں بتا سکتی جن کا تعلق افغانستان کے ساتھ نہ ہو۔‘
وہ پوچھتی ہیں کہ آپ طالبان کے ہاتھوں پناہ گزین بننے کی ہولناکیوں کو ملک سے باہر کے لوگوں کو کیسے سمجھائیں گے؟ لیکن میرا ماننا ہے کہ اسے ’کوئی نہیں سمجھ سکتا۔‘
حمیدی کے مطابق: ’میرا کوئی گھر نہیں ہے۔ یہ احساس ہر روز میرا پیچھا کرتا ہے لیکن میں بے خواب راتیں صرف یہ محسوس کرنے کے لیے گزارتی ہوں کہ میرا تعلق کسی مقام کے ساتھ ہے۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ وطن کا مطلب کیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ گھر ایک احساس ہوتا ہے لیکن ابھی مجھے یہ احساس بھی نہیں۔‘
تمام مشکلات کے باوجود حمیدی کا کہنا ہے کہ وہ سچی بات کہنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میری تائیکوانڈو میری لڑائی ہے کیوں کہ انہوں (طالبان) نے اس پر پابندی لگا دی اور میں وہاں (افغانستان) سے نکال دی گئی۔ میں چیمپیئن بننے کے لیے پیرس آ گئی تاکہ انہیں یہ دکھایا جا سکے کہ اگر آپ مجھ پر وہاں پابندی لگاتے ہیں تو میں اسے یہاں جاری رکھ سکتی ہوں۔ میں آپ کے خلاف لڑ سکتی ہوں اور میں آپ کی سوچ کے خلاف لڑ سکتی ہوں (یہ دکھانے کے لیے) کہ خواتین مضبوط ہیں۔ میں جو چاہوں کر سکتی ہوں اور میرے پاس اختیار ہے۔‘
ان کے بقول: ’میں افغانستان کے لیے لڑوں گی لیکن ایسا میں اپنے طریقے سے کروں گی۔ میں کبھی طالبان کا شکار نہیں بنوں گی۔‘
© The Independent