اردن سے تعلق رکھنے والی خاتون ایتھلیٹ جولیانا الصادق پہلی اردنی اور عرب خاتون ہیں جنہوں نے بین الاقوامی تائیکوانڈو رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔
آٹھ سال کی عمر میں تائیکوانڈو کی تربیت حاصل کرنا شروع کرنے والی جولیانا الصادق نے یونیورسٹی میں کھیلوں کی تعلیم حاصل کی، اور بعد اب وہ کل وقتی مشق کرتی ہیں۔
متعدد مقامی اور بین الاقوامی مقابلے جیتنے کے بعد جولیانا الصادق 2018 میں انڈونیشیا میں منعقد ہونے والے ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے والی پہلی عرب خاتون بنی تھیں۔
اب تک کسی اردنی خاتون نے اولمپکس میں تائیکوانڈو میں طلائی تمغہ نہیں جیتا۔
جولیانا الصادق کا کہنا ہے کہ درجہ بندی میں سرفہرست رہنے کی خواہش نے انہیں اولمپکس میں تائیکوانڈو میں طلائی تمغہ جیتنے کی ترغیب دی۔
انہوں نے مزید کہا: ’یقیناً عالمی تائیکوانڈو رینکنگ میں پہلا ہونا مجھے حوصلہ دیتا ہے اور مجھے مزید محنت کرنے اور آنے والے اولمپکس کے لیے اچھی تیاری کرنے کا عزم فراہم کرتا ہے، اور اگر خدا نے چاہا تو میں اولمپک تمغہ جیتنے میں کامیاب ہو جاؤں گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر ابھرتی ہوئی جولیانا الصادق کا کہنا تھا کہ یہ جذبہ انہیں کامیابی کے لیے مزید مہم جوئی فراہم کرتا ہے۔
اٹھائیس سالہ نوجوان کھلاڑی کا مزید کہنا تھا: ’یہ مجھ پر مزید دباؤ نہیں ڈالتا، اس کے برعکس یہ مجھے اعلیٰ سطحوں تک پہنچنے اور بین الاقوامی تمغے جیتنے کے لیے مزید حوصلہ دیتا ہے تاکہ نوجوان لڑکیاں زیادہ پرجوش بن سکیں۔‘
جولیانا الصادق کے کوچ فارس الاساف نے کہا کہ ان کے کھلاڑی کی کامیابی اردنی لڑکیوں کے لیے کھیل میں شامل ہونے کے لیے تحریک کا باعث بنی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’سچ پوچھیں تو شروع میں یہ قدرے مشکل تھا لیکن اب جولیانا کی کامیابی کے ساتھ، عالمی تائیکوانڈو رینکنگ میں پہلے نمبر پر آنے کے ساتھ، ہم نے دیکھا کہ لڑکیوں کی طرف سے تائیکوانڈو کلبوں میں رجسٹریشن کی مانگ بڑھ رہی ہے۔‘