پنجاب میں نگران حکومت قائم ہونے کی وجہ سے اس بار پورے سال کا صوبائی بجٹ پاس نہیں ہوسکے گا کیونکہ آئینی طور پر نگران حکومت آئندہ چار ماہ کا مخصوص بجٹ پاس کر سکتی ہے۔
نگران حکومت کے تحت جاری منصوبے اور معمول کے سرکاری اخراجات شامل ہوسکتے ہیں۔ نئے ترقیاتی یا فلاحی منصوبے شروع کرنے یا ان پر اخراجات کی عبوری حکومت کو آئین اجازت نہیں دیتا۔
اسی لیے پنجاب کے محکموں نے چار ماہ کی بجٹ سفارشات تیار کی ہیں۔
محکمہ خزانہ پنجاب کی جانب سے صوبے کے آئندہ چار ماہ کے بجٹ پر سفارشات نگران حکومت کو پیش کر دی گئی ہیں۔
رواں سال کا بجٹ اسمبلی میں پیش کرنے کی بجائے نگران کابینہ میں پیش کر کے منظوری لی جاسکے گی۔ لیکن ابھی تک کابینہ اجلاس میں بجٹ کے بارے میں تبادلہ خیال بھی شروع نہیں ہوسکا۔
ترجمان پنجاب حکومت عامر میر کے مطابق بجٹ سفارشات پر کابینہ میں پیش ہونے کے بعد بحث ہوگی اور اس کے بعد منظوری دی جائے گی۔
سابق چیف اکانومسٹ پاکستان ڈاکٹر پرویز طاہر کے بقول ’جس طرح نگران حکومت چار ماہ کا غیر اضافی اخراجات کا بجٹ پیش کرے گی اسی طرح وفاقی حکومت کو بھی کرنا چاہیے تاکہ معیشت مستحکم ہوسکے۔
تجزیہ کار ندیم رضا کے مطابق ایسا پنجاب میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ نگران حکومت کو بجٹ پیش کرنا پڑ رہا ہے اس سے پہلے جمہوری حکومتیں بجٹ پیش کر کے اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آئندہ کے اخراجات کا بجٹ پاس کرا لیتی تھیں۔
پنجاب میں چار ماہ کا بجٹ:
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق پنجاب کے سرکاری اداروں کی جانب سے تیار کی گئی تجاویز میں آئندہ مالی سال کے چار ماہ میں ترقیاتی بجٹ کا حجم 330 ارب روپے مختص کرنے کی سفارشات کی گئی ہیں۔
غیر ملکی فنڈنگ سے جاری منصوبوں کے لیے اخراجات کا تخمینہ 30 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ جو پنجاب حکومت کی جانب سے خرچ کرنے کے معاہدے پہلے سے کیے گئے ہیں۔
دستاویز میں مجموعی طور پر مالی سال 23-24 کے لیے ترقیاتی بجٹ کا حجم 834 ارب روپے مختص کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
سکول ایجوکیشن کے لیے 28 ارب، ہائر ایجوکیشن کے لیے 10ارب مختص کرنے کی تجویز دی گئی۔
سپیشل ایجوکیشن کے لیے ترقیاتی منصوبوں کی مد میں ایک ارب روپے مختص کرنے کی تجویز کی گئی۔ صحت کے بجٹ کے لیے چار ماہ میں 70 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز، اربن ڈویلپمنٹ کے لیے 12 ارب، زراعت کی ترقی کے لیے 13 ارب روپے مختص کرنے کی سفارشات ہیں۔
صاف پانی اور سیوریج کے نکاس آب کی سکیموں کو چار میں سات ارب روپے دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
محکمہ ٹرانسپورٹ کی سفارش پر ٹرانسپورٹ کے لیے چھ ارب روپے اور ایمرجنسی سروسز کے لیے ڈیڑھ ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
چار ماہ کا بجٹ پیش کیے جانے کے اثرات:
صوبہ پنجاب میں چار ماہ کے مختصر عرصے کے بجٹ میں نئے ترقیاتی یا بنیادی سہولیات کے منصوبے شامل نہیں ہوسکیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے پر سابق چیف اکانومسٹ پرویز طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عبوری حکومت ہونے کی وجہ سے پنجاب میں نئے اخراجات کے بغیر چار ماہ کا بجٹ پیش کیا جاسکے گا۔ اس کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ملک کی معاشی صورت حال ہے اس میں اخراجات کو جتنا کم کیا جائے بہتر ہے۔‘
پرویز طاہر کے بقول، ’ہر سال بجٹ پیش کیا جاتا ہے جس میں اخراجات کا تخمینہ تو لگایا جاتا ہے لیکن غیر ضروری اور فضول اخراجات یا کرپشن کی مد میں جانے والے پیسے سے معیشت دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ پنجاب میں تو نگران حکومت کی وجہ سے اضافی اخراجات کا بجٹ پیش نہیں ہوسکتا لیکن آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے وفاقی حکومت اس بار سالانہ بجٹ میں حسب روایت خوب اضافی اخراجات ڈالے گی جو پنجاب کے لیے شاید سب سے زیادہ رکھے جائیں۔‘
ان کے خیال میں ’سیاسی طور پر ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیے جانے والے اضافی اخراجات اور غیر ضروری منصوبوں سے معیشت کا سنبھلنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے ہماری حکومتوں کو چاہیے کے ادارہ جاتی اصلاحات کریں اور متوازن بجٹ کے ذریعے نظام چلائیں تاکہ قرضوں کی بجائے معیشت اپنے وسائل سے چلانے کا سفر شروع ہوسکے۔‘
پرویز طاہر نے کہا کہ ’ہمارے ملک میں بجٹ معاشی طور پر وہی بہتر ہوتا ہے جس میں صرف ضروری اخراجات ہی رکھے جائیں۔‘
سینیئر صحافی ندیم رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے پہلے ایسی صورت حال پیش نہیں آئی کہ نگران حکومت کو پنجاب میں بجٹ پیش کرنا پڑا ہو۔ نگران حکومت تو صرف ضروری اخراجات کا بجٹ ہی پیش کر سکتی ہے اسی لیے ان کی کارکردگی سے متعلق بھی رائے نہیں قائم ہوسکتی۔‘
ندیم رضا کے بقول، ’جس طرح پی ڈی ایم کی مرضی سے پنجاب کا نگران سیٹ اپ بنایا گیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے وفاقی حکومت خاص طور پر مسلم لیگ ن اپنا سیاسی اثرو رسوخ قائم رکھنے کے لیے وفاقی بجٹ میں پنجاب کے لیے پہلے سے زیادہ رقم مختص کرے گی۔ جہاں تک پنجاب کی آئندہ حکومت کے مالی معاملات چلانے کی بات ہے تو چار ماہ بعد بھی اگر انتخاب ہوتا ہے اور پی ڈی ایم کی ہی یہاں حکومت بنتی ہے تو انہیں اس طرح مالی نظام چلانے میں مشکل پیش نہیں ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چار ماہ کے لیے 330 ارب روپے کے اخراجات مختص کرنے کی تجاویز ہیں تو سالانہ بجٹ کا حجم تو کافی زیادہ ہوتا ہے اس لیے چار ماہ بعد نئی حکومت کو اپنا بجٹ تیار کرنا پڑے گا۔‘
گذشتہ سال 2022-2023 کا بجٹ 32کھرب اور 26 ارب روپے کا پیش کیا گیا تھا جو کہ پنجاب میں سیاسی و آئینی بحران کے دوران مسلم لیگ ن کی حکومت نے پنجاب اسمبلی کی بجائے ایوان اقبال کو اسمبلی کا درجہ دے کر پاس کرایا گیا تھا۔
سال 2021-2022 کا بجٹ تحریک انصاف کی حکومت نے 26 سو53 ارب روپے کا پیش کیا تھا۔