ٹفن کیریئر مختصر ہو کے لنچ باکسوں میں بدلے اور پھر ان دونوں کی جگہ ڈسپوزیبل پلیٹوں نے لے لی، یہ جدید دور کی طرف ایک غیر محسوس سا قدم تھا۔
ہم سب کے گھروں میں سٹیل کے برتن ہوا کرتے تھے، تام چینی کی وہ پیلے رنگ کی اور سبز کناری والی پلیٹیں ہوتی تھیں، لسی کے لیے جست اور تانبہ ملے گلاس ہوتے تھے، اس سے تھوڑا پیچھے جائیں تو مٹی کے برتنوں میں کھانا پینا بالکل برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
تھرماس یا فلاسک ہر گھر میں ہوا کرتے تھے جن میں چار چار گھنٹے قہوہ چائے گرم رہتا تھا۔
گھر سے بزرگ سبزی یا سودا سلف لینے نکلتے تو ہاتھ میں کوئی تھیلا یا ٹوکری پہلے سے لے کر جاتے۔ دودھ دہی کے الگ برتن ہوا کرتے تھے، جو سیدھے بھانے پہنچائے جاتے یا صبح صبح کسی جوان کی ذمہ داری ہوتی کہ دوڑ کر جائے اور تازی چیز گھر لائے۔
ہمارا وقت آنے تک یہ سب کچھ دیواروں پر سجاوٹ کے طور پہ ٹنگنا شروع ہوا اور آج کل صرف ’کلچر ڈے‘ قسم کے تہواروں پہ نظر آتا ہے۔
اس کے بعد لیکن ہمارے ساتھ باقاعدہ ہاتھ ہو گیا۔ دنیا کچرا کم کرنے اور وسائل بچانے کی مہم پر چل پڑی۔
ہم یہی سب کچھ پہلے کر رہے تھے تو ہم ’غیر ترقی یافتہ‘ سمجھے جاتے تھے، اب ہمیں کہا گیا کہ اس سب کو چھوڑیں گے تو ہمارا شمار ’تہذیب یافتہ‘ اقوام میں کیا جائے گا!
ہمیں چنا چاٹ بڑے سے پتے پہ ریڑھی والا دیتا تھا، اسے ڈسپوزیبل پلاسٹک کے برتن مغرب نے تھمائے۔ ہمارے بڑے ٹفن کیریئر جن میں چمچ، پلیٹ، کانٹا، میٹھے کا الگ برتن اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ ہوتا تھا اس کی جگہ ’تہذیب یافتہ قوموں‘ کے ایک برگر نے لے لی۔ برگر کو کھانے کا دنیا میں کوئی مہذب طریقہ موجود ہے کیا، سوائے چَک مارنے کے؟
ہمارے مٹی کے برتن ٹوٹتے تھے تو واپس خاک ہو جاتے تھے، تانبے یا سٹیل کے برتن صدیوں چلتے تھے، انہیں بدلنے کا ہی کوئی سوال نہیں تھا تو پلاسٹک کی جگہ کہاں سے بنتی؟ یہ 72 لوازمات والے ڈنر سیٹ اور سب کا سب پلاسٹک ۔۔۔ یہ کدھر سے آئے؟ ہمارے پاس تو انڈسٹری بھی نہیں تھی بابا، یہ سب کچھ پچھلے بیس تیس سال کی پیداوار ہے۔
ہمارا قلفی والا دو روپے میں کھوئے ملائی والی جو چیز دیتا تھا اسے کھانے کے بعد صرف ایک تنکا بچتا تھا، برف کے گولے والا بھی ایک تِیلے پہ گولا بناتا اور تھما دیتا یا پھر وہیں ریڑھی پہ کھڑے ہو کے برتن میں کھانے کا آپشن تھا۔ اب پانچ سو روپے میں وہی سودا آپ چھ قسم کے امپورٹڈ پلاسٹکوں میں پیک شدہ کھاتے ہیں تو وہی باہر والے کہتے ہیں کھوتی کو دوبارہ بوہڑ تھلے لایا جائے، ڈسپوزایبل برتنوں کا استعمال ختم کیا جائے کہ ان سے آلودگی ہوتی ہے۔
مجھے یاد ہے بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ دودھ دہی شاپر میں نہیں لانا اس میں سو قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں، بیماریاں ہوں نہ ہوں لیکن وہ کم از کم شاپر تو استعمال نہیں کرتے تھے؟ کہاں سے آیا یہ شاپروں والا کلچر؟
پاکستان میں سب سے پرانی عیاشی گولی والی بوتل ہوتی تھی۔ وہیں دکان پہ کھڑے ہو کر پی اور بوتل واپس کر دی، موڈ ہوا تو انہی بوتلوں سے مخالف کا سر پھاڑ دیا۔ پھر کولا قسم کی چیزیں شروع ہوئیں، تب بھی خالی بوتلیں واپس کرنا ہوتی تھیں۔ اس وقت آپ کو کہیں ملتی بھی ہے وہ دکان جہاں خالی بوتل واپس کرنا ہوتی ہے؟ سب کچھ پلاسٹک کی بوتلوں، فوائل زدہ گتے کی پیکنگ یا پھر ٹن میں پیک ملتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کس نے دی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس نے دی ہے وہی شور مچاتا ہے کہ اب یہ نقصان دہ ہے اور ہم بھی کہتے ہیں کہ ہاں ہم برے ہیں، ہم ’عالمی کچرے‘ میں اضافہ کر رہے ہیں، ہم ماحول خراب کر رہے ہیں ۔۔۔ یہ تم ہو بابا جو ہمیں اس طرف لے کے آئے ہو، ہم تو گوشت تک کو دھوپ لگا کے خشک کر لیتے تھے، بہت کوئی کھانا بچا تو اسے چِھکے میں ڈال کے تار پہ لٹکا دیتے، نعمت خانے میں رکھ دیتے، فریج فریزر کوئی ہمارے باپ دادوں نے بنایا نہ ان سے نکلنے والی نقصان دہ گیسیں اور باسی تِواسی کھانے۔ یہ شاپر اور پلاسٹک کی چیزیں، یہ سب رائتہ تم نے پھیلایا ہے اور لپیٹ میں ہم بھی آئے ہیں جس کا الحمدللہ ہمیں دل جان سے ہمیشہ شوق رہا ہے۔
میں بتاتا ہوں کہ ہم کتنے ماحول دوست تھے۔ ہمارے سبزی پھل کے چھلکے پالتو جانور کھاتے تھے، شاپر میں ہمارے گھر کوئی چیز آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پنساری یا گلی کے نکڑ والے دکان دار سے الائچی یا سونف کچھ آنا ہوتا تو وہ کاغذ کی پڑیا میں گھر آتا یا پھر اخبار سے بنے لفافوں میں۔ ہمارے بسکٹ بھی سیفد رنگ کے کاغذ میں پیک ہوتے اور ریڑھیوں پہ ملتے تھے۔ ہماری مٹھائیاں گتے کے ڈبوں میں دوسروں کو تحفہ دی جاتی تھیں۔ ہمارے زیوروں اور کھلونوں میں سب کچھ مٹی یا زیادہ سے زیادہ کانچ کا بنا ہوتا تھا۔ ہماری کرسیاں بید سے بُنی جاتی تھیں، ہم فوم کی بجائے روئی کے گدے اور پولیسٹر کی بجائے پروں والے تکیے استعمال کرتے تھے۔ ہمارے گھروں میں ’ڈسٹ بِن‘ صفائی کے بعد مٹی اور جھاڑو کے تنکے پھینکنے کے کام آتا تھا۔
ہمارا پہناوا ہزار سال پہلے بھی ’ویجیٹیبل ڈائیڈ‘ ہوتا تھا اور ’بائیوڈی گریڈ ایبل‘ تھا! ہماری شالیں خالص سلک، دنبے کی اون یا موٹے سوتی کپڑے سے بنتی تھیں، ہمارے جوتوں میں کوئی پلاسٹک کا تلا نہیں ہوتا تھا، چمڑا تھا اور وہ بھی ماحول کو نقصان نہیں پہنچاتا تھا۔
اصل کنفیوز اس وقت وہی بڑے ملک ہیں جو یہ کنزیومر کلچر لائے اور اب خود اس سے بھاگنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔
ہماری چمڑے کی مصنوعات ’جانوروں پہ ظلم‘ کے نام سے بند کیں، اب کہتے ہیں کہ مصنوعی چمڑا پانچ سو سال نہیں گلتا۔ صدیوں سے بنتے ہمارے اصل قالین ’چائلڈ لیبر‘ کا نام دے کے بند کروائے اب کہتے ہیں سنتھیٹک قالین سے دمہ ہوتا ہے۔ کھلی بکنے والی خوراک ’ان ہائی جینک‘ قرار دے دی، اب تیس روپے کے چپس سے زیادہ اس کے پیکٹ کو آلودہ قرار دے رہے ہیں۔ پلاسٹک کے شاپر بند کرواتے ہیں لیکن خوراک ٹِن فوڈ بنا کر دیتے ہیں اور پانی بوتلوں میں بکتا ہے۔ کرنا کیا ہے، رہنا کیسے ہے، یہ اب کوئی نہیں جانتا!
پہلے یہ سب کچرا ماحول میں شامل کرنا اربوں کی صنعت تھی، اب ’ماحولیات‘ کی بات کرنے والے اربوں چھاپتے ہیں۔ فرق صرف یہی ہے!