’میں عمر کی آخری دہائی اپنے وطن میں گزارنا چاہتا تھا، اسی لیے بھائیوں کو ڈھونڈنے کے لیے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تاکہ میرے بھائیوں کو میرے مرنے کے بعد یہ ارمان نہ ہو کہ لاپتہ بھائی کا پتہ نہ لگا سکے اور یوں آخرکار میں اپنے وطن واپس پہنچ گیا۔‘
یہ الفاظ خیبرپختونخوا کے ضلع دیر بالا سے تعلق رکھنے والے ممتاز خان کے ہیں، جو گذشتہ تقریباً 50 سال قبل کم عمری میں گھر سے نکلے اور پھر لاپتہ ہوکر واپس گھر نہ پہنچ سکے۔
ممتاز خان اپنے اسی گھر میں بیٹھے تھے، جہاں تقریباً 62 برس قبل وہ پیدا ہوئے تھے اور آس پاس لوگوں کا ہجوم کھڑا ان سے ملنے کے لیے بے تاب اور خوش تھا۔
ضلع دیر بالا کے پہاڑی علاقے جبر سے تعلق رکھنے والے ممتاز خان کے والدین اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
ممتاز خان کیسے لاپتہ ہوئے تھے؟
ممتاز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی گمشدگی کا واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ وہ تقریباً 11 سال کے تھے، جب وہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کی تحصیل تخت بھائی چلے گئے اور اس کے بعد وہاں سے کراچی پہنچ گئے۔
ممتاز خان نے بتایا: ’کراچی میں کچھ عرصہ محنت مزدوری کرنے کے بعد میں ایران چلا گیا اور وہاں پر مزدوری شروع کی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایران میں کچھ دن گزارنے کے بعد وہ پھر واپس بھی نہیں آسکے کیونکہ اس وقت وہاں پر راستے بند ہوگئے تھے۔
بقول ممتاز: ’مجھے بالکل نہیں پتہ تھا کہ اس وقت میرے گھر والے مجھے ڈھونڈ رہے ہیں۔ اگر پتہ ہوتا تو میں گھر والوں سے رابطہ ضرور کرتا۔‘
ممتاز خان کی داڑھی اب سفید ہوگئی ہے اور بیماری اور زیادہ عمر کی وجہ سے وہ بمشکل چل پھر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا: ’میں نے ایران میں ایک ایرانی خاتون سے شادی کی اور اب میرے چار بچے ہیں، جن میں سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔‘
ممتاز کے بچوں کی بھی شادیاں ہوچکی ہیں اور اب وہ نانا اور دادا بھی ہیں۔
گذشتہ پانچ سال سے ممتاز خان کی صحت کچھ بہتر نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا: ’میں آخری عمر میں یہی سوچ رہا تھا کہ کسی طریقے سے اپنے وطن جا کر بہن بھائیوں اور خاندان والوں سے مل سکوں کیونکہ یہی میرا ارمان تھا اور اس کے لیے میں اللہ سے دعا بھی کر رہا تھا۔‘
بقول ممتاز: ’اپنی خواہش میں نے ایران میں موجود کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو بتائی تو انہوں نے میری ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی اور یوں ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میرے خاندان والوں کو میرے بارے میں پتہ چلا اور اس کے بعد ویڈیو لنک کے ذریعے رابطہ بھی ہوگیا۔‘
پاکستان میں اپنے گھر واپس آنے سے پہلے ممتاز نے بتایا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ مشورہ کیا اور پھر ان کی اجازت سے وہ گھر آئے۔
انہوں نے بتایا: ’میری اہلیہ جو ایرانی بلوچ ہیں، نے میری بہت خدمت کی ہے۔۔۔ اب بھی جب میں آرہا تھا تو وہ رو کر کہہ رہی تھیں کہ مجھے بھی ساتھ لے کر جانا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ممتاز خان جب گھر سے نکلے تھے تو اس وقت ان کا گھر ایک پہاڑی پر واقع تھا اور مین روڈ سے وہاں پیدل پہاڑی پر چڑ کر جانا پڑتا تھا لیکن اب باقاعدہ سڑک بن چکی ہے اور اب گاڑی بالکل ان کے گھر کے سامنے تک جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہاں آکر سب چیزیں بہت عجیب لگ رہی تھیں کیونکہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس پہاڑی میں موجود گھروں تک بھی گاڑیاں پہنچ جائیں گی۔ پہلے ہم پیدل جا کر قریبی بازار داروڑہ جاتے تھے اور وہاں سے ٹرکوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان پہنچ کر انہیں کیا چیزیں عجیب لگیں؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’سب کچھ بدل گیا ہے۔ سڑکیں بن گئی ہیں اور بہت ترقی ہوئی ہے اور اب ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوں۔‘
شہاب الدین، ممتاز خان کے چھوٹے بھائی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمیں اتنی خوشی ہے جیسے کسی کے والد انتقال کے بعد واپس اس دنیا میں آگئے ہوں کیونکہ ہم 50 سال سے اسی امید میں تھے کہ ممتاز کیسے واپس آئیں گے۔‘
ممتاز کی پہلی ویڈیو کیسے وائرل ہوئی؟
ممتاز خان کی پہلی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں انہوں نے اپنے بھائیوں، والد اور گاؤں کا نام بتایا تھا اور اسی سے گھر والوں نے انہیں پہنچانا تھا۔
انہیں گھر والوں سے ملوانے میں کوئٹہ کے شفیع نے مدد کی اور انہوں نے ہی پہلی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تھی اور تقریباً ایک مہینہ بعد شفیع نے ممتاز خان کو ان کے خاندان والوں کے ساتھ ملوایا۔
شفیع نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ انہیں ممتاز خان ایک دکان میں ملے تھے اور انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے ان کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی تھی، جو وائرل ہوگئی۔