پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ لاہور کی میٹرو یا اورنج لائن ٹرین کے اندر، باہر یا سٹیشنز کے اندر یا باہر کسی قسم کی فوٹو گرافی یا ویڈیو گرافی اب بغیر ادارے کی اجازت کے نہیں کی جاسکے گی۔
اتھارٹی کے ڈویلپمنٹ مینیجر محمد تیمور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’صرف اجازت نہیں بلکہ اس کی فیس بھی دینی ہوگی۔ اورنج ٹرین پر عکس بندی کی فیس دو لاکھ سے شروع ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اورنج لائن ٹرین کے 26 سٹیشنز ہیں۔ ایسے سٹیشنز جن پر بہت رش ہوتا ہے، کچھ ایسے ہیں جو ہارٹیکلچر کے ساتھ بنے ہوئے ہیں جیسے شالامار گارڈن، باغبان پورہ، انارکلی یا لکشمی والا سٹیشن اس حساب سے ہم نے سٹیشنز کی اے، بی اور سی کیٹگریز بنائی ہیں۔
اگر آپ اے کیٹیگری کے سٹیشنز پر ہیں تو آپ کو دولاکھ روپے پلس ٹیکس دینا ہوگا۔ اگر آپ بی کیٹیگری کے سٹیشنز پر ہیں تو آپ کو ڈیڑھ لاکھ پلس ٹیکس دینا ہوگا اور سی کیٹیگری کے سٹیشنز پر ہیں تو آپ کو ایک لاکھ روپے پلس ٹیکس فیس دینا ہوگی۔‘
تیمور نے بات جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ اگر کوئی میٹرو سٹیشز پر عکس بندی کرتا ہے توانہیں ایک لاکھ روپے پلس ٹیکس دینا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ تصویریا ویڈیو چاہے سٹیشن کی ہو یا اپنی، ایک ہو یا زیادہ، کمرشل استعمال کے لیے ہو یا تھیسسز والے طالب علم یا میڈیا، پہلے اپنے ادارے کے لیٹر ہیڈ پر درخواست لکھ کر لانا ہوگی اور اجازت لینا ہوگی اور یہ شوٹ سے تین روز پہلے کرنا ضروری ہوگا۔ اس کے بعد فیس بھرنی ہو گی پھرعکس بندی کرنے دی جائے گی۔
ایسا کیوں کیا گیا اس حوالے سے تیمور کا کہنا تھا: ’یہ سلسلہ ہم نے مئی کے مہینے میں ہی شروع کیا ہے اور ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ ہمارے اثاثے کا غلط استعمال کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ان لاکھ دو لاکھ روپے سے ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہم 17 ارب روپے کی سبسڈی لیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ سہولت کا غلط استعمال کرتے ہیں لیکن اب نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے یہ پالیسی منظور کر دی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ حالیہ ایک گلوکار نے میٹرو پر شوٹنگ کے لیے ایک لاکھ روپے فیس دی جس سے ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن وہ گلوکار اس سے اپنا ریونیو جنریٹ کرے گا۔
’اس کو سادہ طریقے میں ٹوکن آف ایپری سی ایشن سمجھ لیں جو ہم لے رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جو کوئی بھی اجازت کے بغیر سٹیشنز پر کیمرہ نکالے گا اسے سکیورٹی فوراً منع کر دے گی۔ اگر آپ اجازت لے کر جائیں گے تو سکیورٹی ٹیم کو پہلے سے معلوم ہوگا کہ کون سی ٹیم عکس بندی کے لیے آرہی ہے اور اس ٹیم میں کون کون شامل ہے۔
’اگر کوئی بغیر اجازت کے عکس بندی کرتا پکڑا جاتا ہے تو اسے 25 ہزار روپے سے پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا یا اسے پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔‘
پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کا ایک پلان اور بھی تھا اور وہ یہ تھا کہ اورنج لائن ٹرین اور میٹرو بش سٹیشنز کے ستونوں کو اشتہاروں کے لیے ٹھیکے پر دے کر اس سے ریوینیو پیدا کیا جائے گا۔
اس بات کو سنتے سنتے تقریباً دو سال گزر گئے۔ اسی حوالے سے ہم نے جب پنجاب پاس ٹرازٹ اتھارٹی کے مینیجر بزنس ڈویلپمنٹ محمد تیمور سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے پر عمل اس لیے نہیں ہوسکا کیونکہ جب ادارے نے اس کا اشتہار اور لیزنگ کا ٹینڈر دیا تو حکومت تبدیل ہو گئی۔
’جب نئی نگران حکومت آئی تو ہم نے پھر سے ٹینڈرکیا ہوا ہے جو زیر عمل ہے اور گذشتہ جمعے کو نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے بزنس پلان منظور کر لیا ہے۔ اب ہم ٹینڈرنگ کے عمل میں ہیں امید ہے کہ دو سے تین ماہ میں آپ کو یہ نظر بھی آجائے گا۔‘
تیمور نے بتایا کہ یہ اوپن ٹینڈر ہوں گے۔ ’ہم اس وقت دو طرح کے ٹینڈرز کر رہے ہیں، ایک لیزنگ آف سپیسز اور دوسرا ٹینڈر ہے اشتہاروں کا۔ لیزنگ آٖف سپیسز میں ہم مختلف ملٹی نیشنل کمپنیزکو کہیں گے وہ یہاں آکر اپنی دکان کھول سکتے ہیں، بک سٹور کھول سکتے ہیں وینڈنگ مشین لگا سکتے ہیں، بینک اے ٹی ایمز لگ سکتے ہیں۔ ‘
تیمور کے مطابق ٹینڈر کے اندر جگہ ریزروو کروانے کی قیمت ساڑھے اٹھارہ کروڑ روپے رکھی ہے جو تین سال کے لیے ہے۔ ان کے پاس اس وقت بڈز آئی ہوئی ہیں جو سب سے زیادہ بولی لگائے گا اسے ٹینڈر جاری کر دیں گے۔ اسی طرح دوسرا ٹینڈر ہے اشتہاروں کے لیے جس کے لیے پاس تین جگہوں پر گنجائش ہے۔
’ٹرین کے اندر، سٹیشن کے اندر اور سٹیشن کے باہر والی سائڈ پر یہ بھی تین سال کا کانٹریکٹ ہے اور اس کی ریزروو پرائس ہم نے ساڑھے انیس کروڑ روپے رکھی اور اس میں بھی جو سب سے زیادہ بولی لگائے گا ٹینڈر اسے دے دیا جائے گا۔ ‘
ان کا کہنا تھا پہلے یہ منصوبہ اورنج ٹرین کے لیے لا رہے ہیں اور اس کی کامیابی کے بعد یہ پورا منصوبہ لاہور کی میٹرو بس کے لیے بھی شروع کر دیں گے۔ اسی طرح پنڈی، اسلام آباد اور ملتان میں بھی کریں گے۔
جب ہم نے تیمور سے پوچھا کہ ماس ٹرانزٹ کو کام کرتے تو ایک عرصہ ہوگیا تو اس سارے منصوبے پر عمل درآمد کروانے میں اتنا وقت کیوں لگا؟
اس پر تیمور کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی یہی سوال پوچھتے ہیں۔
’بدقسمتی سے 2018 سے حکومت کی جانب سے بھرتیوں پر بین لگا ہوا تھا۔ پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے پاس کوئی بزنس ڈویلپمنٹ یا مارکیٹنگ کا ونگ نہیں تھا۔ مجھے گذشتہ برس اس سیٹ پر رکھا گیا اور میں نے اسے گراس روٹ لیول سے شروع کیا۔ مارکیٹ میں لوگوں کو آگاہی دی کہ ہمارے پاس یہاں جگہیں ہیں جنہیں ہم استعمال کرسکتے ہیں۔ اور اس سب میں مجھے ایک سال لگ گیا جو مجھے لگتا ہے کہ میں پھر بھی بہت کم وقت لیا ہے۔
اورنج لائن ٹرین کو سفید ہاتھی کہا جاتا تھا تو کیا اب ماس ٹرانزٹ منافع کما پائے گی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال کے جواب میں مینیجر بزنس ڈویلپمنٹ محمد تیمور کا کہنا تھا کہ، ’ ہم دراصل 100 فیصد سبسڈی پر چل رہے تھے۔ سفید ہاتھی اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس پر کتنا پیسہ لگ رہا ہے اور یہ ہمیں واپس کیا دے رہی ہے۔‘
تیمور نے مزید بتایا کہ ایک سال پہلے اورنج لائن ٹرین پر 60 سے 70 ہزار لوگ روزانہ سفر کرتے تھے۔ ایک پوائنٹ سے دوسرے پوائنٹ تک جانے کے لیے آپ کو 40 روپے دینے پڑتے تھے۔ آپ چاہے پہلے سٹیشن پر اتر جائیں یا آخری دینے آپ کو 40 روپے ہی تھے۔ لیکن نومبر 2022 میں ہم نے ڈسٹنس بیسڈ فیئر متعارف کروایا جس میں پہلے سٹیشن سے چوتھے سٹیشن تک آپ کو بیس روپے دینے پڑیں گے۔ چوتھے سے آٹھویں سٹیشن تک 25 روپے۔ آٹھویں سے بارہویں سٹیشن تک 30 روپے۔ 12 سے 16 ویں سٹیشن تک 35 روپے جبکہ 16 کلومیٹر سے زیادہ کے سفر پر مسافر کو 40 روپے دینے پڑیں گے۔
’اس تبدیلی کا فائدہ یہ ہوا کہ اورنج لائن ٹرین میں سفر کرنے والوں کی تعداد روزانہ دولاکھ تک چلی گئی ہے۔ اس میں وہ مسافر بھی آ گئے جو چنگچی پر سفر کرتے تھے اور 20 روپے دے کر سٹاپ سے سٹاپ چلتے تھے۔ انہیں کم کرائے کی سہولت کے ساتھ ساتھ آرام دہ ٹھنڈی ٹرین میں سفر کرنے کا فائدہ ملا۔‘
اس سے ان لوگوں کو بھی فائدہ ہوا جو مہنگائی کی وجہ سے پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے تنگ تھے جیسے موٹر سائیکل والے اورنج ٹرین سٹیشن پر موٹرسائیکل کھڑی کرتے ہیں اور 20 روپے میں اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔
تیمور کا کہنا تھا بہتری کا عمل ہر جگہ چلتا رہتا ہے، ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ ہم دو تین ارب روپے یہاں سے سالانہ کمائیں تاکہ حکومت پر بوجھ کم سے کم پڑے۔
’ہم اسی ڈسٹنس بیسڈ فیئر کو لاہور میٹرو، پنڈی میٹرو اور ملتان میٹرو میں بھی شروع کریں۔ کیونکہ اس طرح مسافروں کی تعداد بڑھے گی اور ہمیں اس سے منافع بھی زیادہ ہوگا۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ ڈسٹنس بیسڈ فیئر کے بعد ہماری ریونیو کولیکشن میں گذشتہ برس سے 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تیمور کا کہنا تھا کہ یہ سب منصوبے منظور ہو چکے ہیں اس لیے حکومت کی تبدیلی سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔