گلگت بلتستان کے شہر سکردو کے بالکل سامنے واقع خوبصورت قلعہ ’کھرپوچو‘ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔
سیاح کھرپوچو سے سکردو شہر کا نظارہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں موجود قدیم چیزوں کو دیکھ کر انجوائے کرتے ہیں۔
بلتستان کے مختلف قلعے و محلات یہاں کے راجاؤں کی سیاسی، سماجی، معاشرتی اور ثقافتی زندگی کا ایک مرقع تھے۔
یہ قلعے دفاعی نقطہ نگاہ سے اونچے پہاڑ کی چوٹیوں پر بنائے جاتے رہے جو مضبوط تعمیر کا مستحکم نمونہ تھے اور ان کو آسانی سے فتح نہیں کیا جا سکتا تھا۔
قلعہ کھرپوچو سکردو شہر کے عین وسط میں دریائے سندھ کے کنارے واقع سنگلاخ چٹان پر بنایا گیا ہے جو اپنے اندر سینکڑوں تاریخی داستانیں چھپائے نظر آتا ہے۔
اس تاریخی قلعے کو مقپون خاندان کے نامور راجہ ’بوخا مقپون‘ نے 1490 سے 1515 عیسوی کے دوران تعمیر کروایا تھا۔ اسی راجہ نے سکردو شہر بھی آباد کیا تھا۔ یوں قلعہ کھرپوچو اور سکردو شہر ہم عصر ہیں۔
تاریخ دان یوسف حسین آبادی کے مطابق: ’شروع میں اس قلعے کو کھرپوچھے کہا جاتا تھا، دھیرے دھیرے کثرتِ استعمال سے وہ لفظ کھرپوچو میں بدل گیا۔‘
کھرپوچو کا صدر دروازہ ’سنگے ستاغو‘ کہلاتا تھا۔
قدیم روایات کے مطابق اس دروازے پر شیر کی تصویر کندہ تھی۔ جب دروازہ بند ہوتا تو یہ شہر بہت ہیبت ناک دکھائی دیتا تھا۔ یہ دروازہ بہت مضبوط تھا اور یہاں حفاظت کے خاطر خواہ انتظامات بھی موجود تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوسف حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کھرپوچو تک آنے کا باقاعدہ کوئی راستہ موجود نہیں تھا، مقامی روایات کے مطابق زیرِ زمین سرنگوں کے ذریعے قلعے تک آمد و رفت ہوتی تھی۔‘
سولہویں صدی میں جب بادشاہ ’علی شیر خان انچن‘ گلگت تا چترال مہم پر گئے ہوئے تھے تو اس مدت میں ان کی مغل ملکہ گل خاتون نے کھرپوچو تک رسائی کے لیے راستہ بنوایا۔
اپنی رہائش کے لیے کھرپوچو کے دامن میں دریائے سندھ کے کنارے ملکہ نے ایک خوبصورت محل بھی تعمیر کیا۔
مقامی لوگوں نے ملکہ کے نام پر اسے ’میندوق کھر‘ یعنی پھول محل کا نام دیا۔
شاندار چوبی کام والے اس محل کی پانچ منزلیں تھیں جبکہ مختلف اقسام کے سنگِ مرمر کا استعمال اس قرینے سے کیا گیا تھا کہ دیکھنے والے حیرت میں مبتلا ہو جاتے تھے۔
اس محل کے سامنے موجود باغ تک پانی پہنچانے کے لیے ملکہ نے ’گنگوپی نہر‘ بنوائی جو اپنی جگہ فنِ تعمیرات کا حیرت انگیز نمونہ ہے۔