گلگت بلتستان کے قدیم ثقافتی تہوار ’مے فنگ‘ کے سلسلے میں گذشتہ روز (12 جنوری کو) رگن فیسٹول منایا گیا، جس کا مقصد نئے تبتی سال کی آمد کو خوش آمدید کہنا ہے۔
اس موقعے پر نوجوان گاؤں میں ایک پہاڑی یا ٹیلے پر جمع ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں مشعلیں ہوتی ہیں۔
جب مکمل اندھیرا چھا جاتا ہے تو آگ جلائی جاتی ہے اور ہر کوئی خوشی سے نعرے لگا کر پروگرام شروع کرتا ہے، اس دوران گانوں پر رقص بھی کیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ خواتین اپنے گھروں میں مزیدار مقامی کھانے بھی بناتی ہیں جن میں مرجان، ازوک، لکساب خر، بیلے، ترو بیلے وغیرہ شامل ہیں۔
تبت بلتستان آرٹس کونسل سے منسلک علی کاظم گولڈن نے بتایا کہ ’اس کا اصل مقصد خوشی منانا، سردیوں کے سخت موسمی حالات سے نجات اور آمد بہار کا جشن ہے۔‘
علی کاظم گولڈن کا کہنا تھا کہ ’جشن مے فنگ آگ پھینکنے کا تہوار ہے۔ بلتستان میں ہزاروں سال سے یہ تہوار منایا جارہا تھا، تاہم یہ تہوار کچھ سالوں سے بالکل ختم ہو گیا تھا، تاہم تبت بلتستان آرٹس کونسل نے اس جشن کو 2012 سے دوبارہ زندہ کیا ہے اور اب اس تہوار کو جشن نوروز کے بعد سب سے بڑے تہوار کا اعزاز حاصل ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ ہر سال 21 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ 21 دسمبر سے تین ہفتے پہلے اور تین ہفتے بعد اس کو بہت زور و شور کے ساتھ لوگ مناتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس تہوار کی تاریخ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’شگر کے لوگ سکردو کے ظالم جابر حکمران کے قتل پر خوشی کے اظہار کے لیے یہ تہوار مناتے ہیں لیکن تاریخ دان عباس کاظمی مرحوم کے مطابق راجا سکردو بہت بہادر اور دلیر بادشاہ تھے اور ان کا دور حکومت راجا علی شیر خان انچن کے بعد کا دور ہے۔ اس لحاظ سے یہ سات سے آٹھ سو سال قدیم ہے جبکہ مے فنگ دو ہزار سال پہلے سے بلتستان میں منایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عباس کاظمی شگر والوں کے دعوے کو رد کرتے ہیں۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ یہ ایک ظالم راجا کے قتل ہونے کا جشن ہے تو سکردو روندو کھرمنگ والے کیوں مناتے ہیں؟‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’بہرحال مے فنگ بلتستان میں جہاں سے بھی آیا ہو یا یہاں سے کہیں گیا ہو، یہ بلتستان کا قدیم تہوار ہے اور ہزاروں سالوں سے بلتستان میں منایا جا رہا ہے۔‘