دبئی کی تپتی دھوپ میں پیسے بیرون ممالک بھیجنے والی ایک دکان کے باہر محمد بلال بیٹھے انتظار کر رہے تھے تاکہ وہ ایک ہزار ڈالر پاکستان میں مقیم اپنے والدین اور بیوی کو بھیج سکیں۔ اس رقم کی منتقلی کا خرچہ سات ڈالر فی ٹرانزیکشن ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق محمد بلال متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ان تارکین وطن میں سے ہیں جو اب بغیر ٹرانسفر فیس ادا کیے رقم بھیجنے کے لیے کرپٹوکرنسی اور بلاک چین سروسز کا استعمال کر رہے ہیں۔
اس بڑھتے ہوئے رجحان سے متعلق 27 سالہ کسٹمر سروسز ملازم بلال کا کہنا تھا، ’اب مجھے لمبی قطاروں میں نہیں لگنا پڑتا۔
’میں گھر سے موبائل فون سے یہ کام کرتا ہوں اور پیسے سیکنڈوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔‘
بلاک چین ڈیٹا پلیٹ فارم ’چین انالیسز‘ کے مطابق گذشتہ سال مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں کرپٹو مارکیٹ نے بے انتہا تیزی سے فروغ پایا ہے۔
اس کے تجزیے کے مطابق جون تک خطے میں سالانہ کرپٹو ٹرانسفر 48 فیصد اضافے کے ساتھ پانچ سو 66 ارب ڈالر تک جا پہنچے تھے۔
یو اے ای دبئی کو ’بلاک چین پر مکمل انحصار کرنے والا‘ شہر بنانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے امارات نے ڈیجیٹل اثاثوں کے لیے قوانین اور ریگولیٹری نظام تشکیل دیا ہے تاکہ دبئی کو کرپٹو کا مرکز بنایا جا سکے۔
دبئی میں قائم فن ٹیک فرم ’پیپل (Pyypl) ‘ کے سی ای او انتی ارپونین کا کہنا ہے کہ 50 لاکھ لوگوں نے اب تک ان کی ایپ ڈان لوڈ کی ہے تاکہ رقوم کو منتقل کیا جا سکے۔
انہوں نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا: ’80 فیصد ہمارے صارفین تارکین وطن ہیں اور اس تعداد میں حد درجہ اضافہ گذشتہ سالوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔‘
تارکین وطن ورکرز کو کرپٹو کرنسی نے روایتی بینکنگ اور پیسے ٹرانسفر کرنے کی سروسز کی جگہ ایک بہتر ڈیل فراہم کی ہے۔ اس کے باوجود کہ پچھلے سال مارکیٹ میں خسارے کے بعد ڈیجیٹل کرنسی استعمال کرنے والوں نے بھاری نقصان اٹھایا۔
تاہم پیٹ ہوسن، جو نارتھ امبریا یونیورسٹی میں پروفیسر ہونے کے ساتھ ایک کرپٹو ماہر بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ ایسے پلیٹ فارمز صارفین کو فراڈ اور کرنسی ریٹس میں شدید اتار چڑھاؤ جیسے خدشات سے بھی دوچار کرتے ہیں۔
ان کے مطابق: ’صارفین کے فنڈز انشورڈ نہیں ہوتے جب وہ ایسے پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہیں (کرپٹو اور بلاک چین ایپس میں)، جیسا کہ ایک بینک کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تارکین وطن کی پیسے کی قدر کے متلاشی
اقوام متحدہ کے کیپٹل ڈیولپمنٹ فنڈ کی گذشتہ سال کی ایک رپورٹ میں انکشاف گیا کہ یو اے ای کی 93 لاکھ عوام کا تقریباً 90 فیصد حصہ تارکین وطن پر مشتمل ہے جو انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور مصر سے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان کی وجہ سے اربوں ڈالر ترسیلات کی صورت میں ان کے ممالک میں جاتے ہیں۔ مگر ان میں سے بیشتر وہ افراد ہیں جو دستی مشقت کرتے ہیں اور پانچ ہزار درہم کم از کم ماہانہ نہیں کماتے جو یو اے ای میں ایک بینک اکاونٹ کھولنے کے لیے لازمی ہیں۔
بنگلہ دیش میں مائگریشن سٹڈیز سینٹر میں ریسرچ کرنے والے محمد جلال الدین سکدار کا کہنا ہے کہ تارکین وطن اکثر اوقات کیش ٹرانسفر سروسز بھی استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ سستی ہوتی ہیں۔
یو اے ای میں پیسے منتقل کرنے کی سروسز عام طور پر 25 درہم ایک ٹرانس ایکشن کے لیتے ہیں۔
تارکین وطن کرپٹو کرنسی کریڈٹ کارڈ اور کرپٹو ایکسچینج آفسز کے ذریعے خرید سکتے ہیں اور اپنے خاندانوں کے ڈیجیٹل والٹ میں بھیج سکتے ہیں جس کے بعد ان کے خاندان والے کرپٹو رقوم کو اپنی مقامی کرنسی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
یو اے ای کے مرکزی بینک نے ’ڈیجیٹل درہم‘ کے نام سے ایک کرنسی متعارف کرائی ہے جو اس کے خیال میں سرحد کے پار رقوم کی منتقلی اور معاشی طور پر یکجا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
مارچ میں بینک نے انڈیا کے ریسرو بینک کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا جس میں ترسیلات اور تجارتی رقوم کی منتقلی میں سہولت ہوسکے۔
لیکن چند تارکین وطن اس ڈیجیٹل رقوم کی منتقلی کے ذرائع سے خائف دکھائی دیے۔
مصر سے تعلق رکھنے والے احمد عبد الفتح کا کہنا تھا کہ وہ کرپٹو میں سرمایہ کاری کے علاوہ رقوم منتقل بھی کرتے تھے تاہم اب وہ 2022 کے مارکیٹ کریش کے بعد اس سے مطمئن نہیں ہیں۔
’میں نے اپنی آدھی سے زیادہ سرمایہ کاری کھو دی۔
’یہ بہت تذبذب کا شکار مارکیٹ ہے۔ جس کی وجہ سے میں نے کرپٹو میں سرمایہ کاری چھوڑ کر بہتر مواقع کا سوچنا شروع کر دیا ہے۔‘