پاکستان کے ضلع استور میں واقع نانگا پربت کا بیس کیمپ کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز ہے۔ ہرلنگ کوفر اور لتابوہ بیس کیمپوں میں بڑی چٹان پر جان گنوانے والے کوہ پیماؤں کے نام کندہ کر دیے گئے ہیں۔
بیس کیمپ میں موجود پورٹرز نے سینہ بہ سینہ چلی آنے والی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ ’کچھ عرصہ قبل نانگا پربت سے برفانی تودے کے ساتھ بہت سے کوہ پیماؤں کی لاشیں بھی نیچے آ گئیں تھیں جنہوں نے کوہ پیمائی کے دوران جانیں گنوائیں تھیں۔‘
دنیا کی نوویں اور پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی جس پہاڑ یعنی نانگا پربت کو قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کوہ پیماؤں کی یاد میں لتابوہ اور ہرلنگ کوفر پر ان کے نام کندہ کیے گئے جہاں بعد ازاں ان کے اہل خانہ بھی تشریف لائے تھے۔
نانگا پربت کو قاتل پہاڑ کا نام تب دیا گیا جب اس کو سر کرنے کے لیے 31 لوگوں نے جان گنوائی۔ 1953 میں آسٹریلیا کے کوہ پیما ہرمن نے اس قاتل پہاڑ کو پہلی بار سر کیا۔
نانگا پربت کو خطرناک اس لیے بھی سمجھا جاتا ہے کیوں کہ یہاں برفانی تودے گرنے کی تعداد کے ٹو سے بھی زیادہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہرلنگ کوفر بیس کیمپ پر پہاڑ سے ہر چند گھنٹوں بعد زور دار دھماکوں کی آوازیں آتی ہیں جو کہ برفانی تودے گرنے کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔
نانگا پربت کے تین رخ ہیں اور مغربی رخ دیامیر کی اطراف سے جانے والا راستہ پہاڑ پر چڑھنے کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسرا مشرقی رخ رائے کوٹ سے ہے جبکہ تیسرا جنوبی رخ استور میں واقع روپل وادی میں واقع ہے۔
روپل وادی میں پہلا کیمپ ہرلنگ کوفر جبکہ دوسرا کیمپ لتابوہ ہے۔ دونوں کیمپوں سے نانگا پربت بادلوں میں ڈھکا ہوتا ہے اور کبھی کبھار نظر آتا ہے۔