اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر حملے اور طاقت کے ذریعے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد سے دنیا کے کسی بھی ملک نے افغانستان میں ان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔
اپنے آپ کو عالمی سطح پر منوانے کے لیے طالبان کی کوششوں کا محور دنیا بھر میں افغان سفارت خانوں پر قبضہ رہا ہے۔ اس ضمن میں ہر بار میزبان ملک نے خاموشی اختیار کی۔
یہ طریقہ چین، روس، ایران، پاکستان اور کئی وسطی ایشیائی ریاستوں میں کامیاب رہا اور طالبان کو امید تھی کہ اگلی باری اہم علاقائی طاقت انڈیا میں افغان سفارت خانے کی ہو گی۔
نئی دہلی میں موجودہ افغان سفیر کا تقرر مغربی حمایت یافتہ اشرف غنی کی انتظامیہ نے 2020 میں کیا تھا۔ غنی کے مقرر کردہ دیگر افراد کی طرح، جو اب بھی دنیا بھر میں افغان سفارت خانوں پر قابض ہیں، فرید ماموندزی کو کابل کی جانب سے فنڈ کی ضروری فراہمی روک دی گئی ہے، لیکن ان کا اصرار ہے کہ وہ افغان عوام کے حقیقی جمہوری جذبے کی نمائندگی کرتے رہیں گے اور طالبان کے زوال کا انتظار کریں گے۔
لیکن نئی دہلی میں ایک اور شخصیت بھی موجود ہیں جن کی نظریں ماموندزی کی سیٹ پر ہیں۔ قادر شاہ کابل کے صدارتی محل اور انڈیا میں افغان مشن میں تجارتی شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے سفیر فرید ماموندزی کے سابق رفیقِ کار رہ چکے ہیں۔ اب سفارت خانے میں ان کا خیرمقدم نہیں کیا جا رہا ہے، تاہم دوحہ میں طالبان کے بڑے عہدے دار سہیل شاہین نے انہیں ترجیحی بنیادوں پر انڈیا میں افغانستان کا سفیر نامزد کیا ہے۔
دہلی کے وسط میں واقع سرسبزوشاداب چانکیہ پوری کے سفارتی علاقے میں اقتدار کی اس کشمکش کے عالمی سطح پر طالبان کے حوالے سے رائے پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس کا انڈیا اور افغانستان کے درمیان تعلقات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، جیسا کہ انڈین ذرائع ابلاغ اس حوالے سے خبریں شائع کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
اب فرید ماموندزی اور قادر شاہ دونوں کہانی کے اپنے اپنے پہلو سنانے کے لیے دی انڈپینڈنٹ کے ساتھ الگ الگ انٹرویو میں بیٹھے اور انہوں نے وضاحت کی کہ کس طرح دو قریبی ساتھیوں کے درمیان تعلقات سازشوں، کیچڑ اچھالنے اور محلاتی بغاوتوں کے تلخ الزامات کا شکار ہوئے۔
ماموندزی کے ساتھ اپنی ’دوستی‘ جس میں اب تلخی آ چکی ہے، کو یاد کرتے ہوئے قادر شاہ نے کہا کہ ’ہم (کابل میں) صدارتی محل میں 2014 سے کام کرتے رہے ہیں اور ایک دوسرے کو ایک دہائی سے جانتے ہیں۔‘
اس کے باوجود قادر شاہ کی طرف سفیر کو لکھ کر بھیجے گئے پیغامات کا اپریل سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ’مجھے اب ان (سفیر) یا سفارت خانے کے دیگر عہدیداروں کی طرف سے کوئی جواب نہیں مل رہا۔ میں تقریباً بلیک لسٹ ہو چکا ہوں اور اب کئی بار سفارت خانے کے دروازے سے واپس آیا ہوں۔‘
قادر شاہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’(ماموندزی کے ساتھ) اس جھگڑے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے خلاف بات کر رہا ہوں کیوں کہ وہ اتنے اچھے دوست ہیں۔‘
اس وقت جب فرید ماموندزی اپریل میں لندن میں تھے، افغانستان کے سفارت خانے کے عہدیداروں نے قادر شاہ پر ’محلاتی بغاوت‘ کی منصوبہ بندی اور اسے انجام دینے کی کوشش کا الزام لگایا ہے، اس امید پر کہ وہ ناظم الامور کی ذمہ داریاں پوری کریں گے کیوں کہ اسی ماہ کابل میں طالبان کے زیر انتظام وزارت خارجہ نے انہیں نامزد کیا۔
تاہم قادر شاہ نے اس خیال کو مسترد کر دیا کہ وہ طالبان کے آدمی ہیں۔ انہوں نے دلیل دی کہ کابل میں موجود قیادت نے صرف اس لیے ان کا نام پیش کیا کیوں کہ وہ دہلی میں افغان سفارت خانے میں دوسرے نمبر پر تھے اور یہ کہ طالبان کے خارجہ امور کے وزیر امیر خان متقی، فرید ماموندزی کے کام سے خوش نہیں تھے۔ امیر خان متقی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور برطانیہ نے 2001 میں طالبان کی سابق حکومت کے دوران بطور وزیر تعلیم ان کے کردار کے باعث پابندی لگا دی تھی۔
دوسری جانب فرید ماموندزی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’طالبان کی ایما پر‘ اپنا دفتر خالی کرنے اور سفارت خانے کا چارج قادر شاہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ وہ معزول جمہوری انتظامیہ کے لیے قلعہ سنبھالے ہوئے ہیں اور عالمی سطح پر طالبان کو قانونی حیثیت دلوانے میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔
نئی دہلی میں افغان سفارت خانے کی عمارت پر اب بھی سیاہ، سرخ اور سبز رنگ کا افغان قومی پرچم لہرا رہا ہے۔ طالبان نے کابل میں اس پرچم کو اپنے پرچم کے ساتھ تبدیل کر دیا ہے۔ افغان پرچم داخلی دروازے پر لگے بڑے ڈنڈے، سفارت خانے کے تمام حصوں اور راہداریوں میں لہرا رہا ہے۔ پرچم کے ساتھ اشرف غنی کی خوش نما تصاویر آویزاں ہیں، جو 2021 میں طالبان کی پیش قدمی کے بعد فرار ہو کر اب متحدہ عرب امارات میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
تاہم سفارت خانے کی راہداریوں میں خوفناک خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ سفارت خانے کا زیادہ تر عملہ جا چکا ہے اور بہت کم لوگ وہاں موجود ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ سفارت خانے کے پاس فنڈز کے لیے کوئی قانونی انتظامیہ نہیں ہے۔
فرید ماموندزی نے کہا: ’ایک بے وطن (سفارتی) مشن بے وقعت ہو جاتا ہے۔‘ اطلاعات کے مطابق اس مشن میں پہلے 23 سفارت کار تھے، لیکن اب صرف 10 کے قریب رہ گئے ہیں۔ باقی پناہ گزین کا درجہ حاصل کرنے کے لیے کینیڈا جیسے دیگر ممالک فرار ہوچکے ہیں۔
فرید ماموندزی اس حوالے سے بہت کم جذباتی ہیں، جسے قادر شاہ ماضی کی دوستی کا نام دیتے ہیں، جبکہ واضح طور پر دونوں عہدے داروں نے قونصلر سروس میں اپنے کیریئر کے دوران پیشہ ورانہ تعلقات قائم کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ قادر شاہ کو ان کا کردار ادا کرنے کی اجازت دینے کے لیے ان کے پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور یہ کہ طالبان کے منتخب کردہ ’ناظم الامور‘ ’غلط معلومات پھیلا رہے ہیں اور مشن کے اہلکاروں کے خلاف بے بنیاد اور کسی ثبوت کے بغیر مہم چلا رہے ہیں۔‘
یہ گذشتہ ماہ افغانستان کے خبر رساں ادارے طلوع نیوز کی طرف سے شائع کردہ ایک کھلے خط کا حوالہ ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ خط ’انڈیا میں مقیم افغان شہریوں کے نمائندے‘ کی طرف سے ہے۔ خط میں لیز کے معاہدے کے معاملے میں سفیر اور سفارت خانے کے دیگر عہدیداروں پر بدعنوانی کا الزام لگایا گیا۔
فرید ماموندزی نے اس وقت عوامی بیان جاری کیا اور ’غیر دستخط شدہ خط کی بنیاد پر کرپشن کے من گھڑت الزامات‘ کو مسترد کر دیا۔
سفارت خانے کے حکام کا کہنا ہے کہ قادر شاہ نے گذشتہ 12 ماہ کے دوران دانستہ طور پر طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کیے اور اس گروپ کو اہم معلومات لیک کیں، جن میں افغانستان کے بارے میں اہم انڈین رہنماؤں کے خیالات اور مشن کی تفصیلات شامل ہیں، جیسے کہ سفارت خانے کا کون سا عہدیدار کیا کر رہا ہے اور کون سا عہدیدار نئی دہلی جا رہا ہے۔
سفارت خانے کے ایک ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’قادر شاہ نے حالیہ مہینوں میں طالبان کا وفادار بننے کی کوشش کی، لیکن وہ اس غلط کوشش میں نئی دہلی میں ان کی مدد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب قادر شاہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انڈیا اور افغانستان کے درمیان تجارتی تعلقات کے حوالے سے صرف اپنے کام کی خاطر طالبان کے ساتھ رابطے میں تھے، جو سقوط کابل کے باوجود مستحکم رہے اور جن کا حجم انڈیا کے لیے سالانہ تقریباً 50 کروڑ ڈالر (40 کروڑ پاؤنڈ) ہے۔
اس تنازع میں دونوں فریقوں نے انڈیا کی وزارت خارجہ سے مدد کے لیے الگ الگ اپیل کی ہے۔ طالبان کی جانب سے قادر شاہ کی ’تقرری‘ کے بارے میں انڈین حکومت کو سہیل شاہین نے براہ راست آگاہ کیا تھا، نہ کہ سفیر فرید ماموندزی کے ذریعے، جس کو سفارت خانے کے حکام نے سفارتی اصولوں سے انحراف قرار دیا تھا۔
کئی مواقع پر جب قادر شاہ نے سفارت خانے میں داخل ہونے کی کوشش کی اور انہیں داخل نہیں ہونے دیا گیا تو وہاں کے عہدیداروں نے انہیں دور رکھنے میں مدد کے لیے انڈین حکام سے رابطہ کیا۔
تاہم انڈیا نے اب تک کسی کا بھی ساتھ دینے سے انکار کیا ہے اور ایک سرکاری بیان میں اسے افغانستان کا ’اندرونی معاملہ‘ قرار دیا ہے۔
فرید ماموندزی نے انڈیا پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے پر ایک موقف اختیار کرے اور ایسا کرکے یہ پیغام دے کہ وہ جمہوری اقدار کے لیے کھڑا ہے۔
انہوں نے کہا: ’مجھے امید ہے کہ پورا خطہ خصوصاً انڈیا افغانستان سے متعلق امور پر روشن خیال مفاد کے جذبے سے کام کرے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’افغان اپنے دوستوں کی پالیسیوں کا فیصلہ ان کے انتخاب کی بنیاد پر کریں گے اور یقینی طور پر ان لوگوں کو یاد رکھیں گے جو مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہے۔‘
فرید ماموندزی مزید کہتے ہیں: ’جب ہم افغانستان میں صنفی امتیاز اور ناقص گورننس کی وجہ سے دنیا کا بدترین انسانی بحران دیکھ رہے ہیں، طالبان کو تسلیم کرنے سے افغان خواتین اور لڑکیوں کو ایک حیران کن پیغام ملے گا کہ دنیا انہیں بھول چکی ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ مستقبل قریب میں انڈیا کی جانب سے کابل میں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا کوئی امکان نہیں، لیکن ماموندزی کی حمایت میں ناکامی اس بات کو خاموشی سے تسلیم کرنے کی نشانی ہے کہ طالبان اقتدار میں رہیں گے اور یہ کہ نریندر مودی انتظامیہ کو جلد یا بدیر طالبان کے ساتھ بہتر رابطے قائم کرنے پڑیں گے یا اسے چین جیسے ممالک سے پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہے، جو سب سے پہلے افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری شروع کرکے آگے نکل چکا ہے۔
ایک عسکری ماہر اور انڈین قومی سلامتی کا احاطہ کرنے والے ماہانہ میگزین ’فورس‘ کے مدیر پروین ساہنی کہتے ہیں: ’طالبان کے ساتھ تعلقات میں انڈیا کی پالیسی میں تبدیلی یا دہلی میں ان کے نمائندے کی موجودگی کے بارے میں کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ ہو رہا ہے۔ اشرف غنی انڈیا کے لیے قصہ پارینہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان، چین اور روس کی جانب سے طالبان کے ساتھ باضابطہ مذاکرات میں شرکت کی دعوت نہ ملنے کے باوجود انڈیا دیکھ رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر وہ افغانستان میں قدم جمانا چاہتا ہے تو اسے ملک کے نمائندے کی میزبانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب انڈیا کہتا ہے کہ یہ ایک اندرونی معاملہ ہے تو وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ دہلی میں افغانستان کی نمائندگی رہے، جس سے کابل میں ہماری پوزیشن بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔‘
انڈین فوج کے ایک سابق عہدیدار کا کہنا ہے کہ طالبان کے حوالے سے انڈیا زیادہ لچکدار ہو جائے گا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی میز پر یہی واحد آپشن ہو گا۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں انڈیا کسی بھی وقت طالبان کے نامزد کردہ شخص کو نئی دہلی میں افغان سفیر مقرر کرنے کے انتظام کو باضابطہ شکل دے سکتا ہے؟
اس سوال پر پروین ساہنی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ممکن ہے کہ انڈیا اگلے شخص کو صدر کے سامنے اپنی اسناد پیش کرنے کی اجازت نہ دے، اسے رسمی شکل دینے سے گریز کرے اور شاید موجودہ سفیر خاموشی سے رخصت ہو جائیں۔‘
بالآخر، انڈیا کو شاید کوئی جرات مندانہ بیان دینے کی ضرورت نہیں ہوگی، اسے صرف اس وقت تک انتظار کرنا ہوگا جب تک کہ غنی انتظامیہ کے سفیر کی مدت ختم نہیں ہو جاتی۔ سفیر کی حیثیت سے فرید ماموندزی کی مدت صرف فروری 2024 تک ہے، حالانکہ یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ وہ اس کے بعد اپنی مرضی سے رخصت ہوں گے یا نہیں۔
فی الحال قادر شاہ دہلی میں اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ اور نہیں ہے، کیوں کہ فرید ماموندزی نے انہیں مشن میں تجارت کے سربراہ کے طور پر ان کے کردار سے برطرف کر دیا تھا۔
تاہم انہیں اب بھی ایک ایسے انتظام کی امید ہے، جس کے ذریعے ان دونوں کے درمیان یہ تلخی ختم ہوجائے۔ ان کا کہنا ہے: ’مجھے اب بھی امید ہے کہ ہمارے درمیان دوستی برقرار رہے گی۔‘
© The Independent