افغانستان پر کنٹرول کے بعد طالبان اور بھارت کی پہلی ملاقات

بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق قطر میں بھارتی سفیر دیپک متل نے طالبان کی درخواست پر دوحہ میں ان کے سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی سے ملاقات کی۔

دوحہ میں   بھارتی سفیر دیپک متل (دائیں ) اور افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس  ستانکزئی (بائیں)- (فوٹو: اے ایف پی/ ٹوئٹر)

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد قطر میں بھارتی سفیر کی ایک اعلیٰ طالبان رہنما سے پہلی باضابطہ سفارتی ملاقات ہوئی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے بتایا کہ سفیر دیپک متل نے طالبان کی درخواست پر دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی سے ملاقات کی۔

وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ دونوں فریقوں نے افغانستان میں رہ جانے والے بھارتی شہریوں کی حفاظت پر تبادلہ خیال کیا۔

وزارت خارجہ نے کہا کہ متل نے بھارت کے اس خدشے سے بھی آگاہ کیا کہ بھارت مخالف عسکریت پسند افغانستان کی سرزمین کو حملوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

مزید کہا گیا: ’طالبان کے نمائندے نے سفیر کو یقین دلایا کہ ان مسائل کو مثبت طور پر حل کیا جائے گا۔‘

یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب شیر عباس ستانکزئی نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ طالبان بھارت کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات چاہتے ہیں۔

طالبان کی جانب سے بھارت کے ساتھ مذاکرات پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

بھارت نے افغانستان میں ترقیاتی کاموں میں تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی اور امریکہ کی حمایت یافتہ اشرف غنی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے، لیکن طالبان کی تیزی سے پیش قدمی کے ساتھ، بھارتی حکومت کو طالبان کے ساتھ کسی قسم کے روابط نہ رکھنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بھارت کے سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کے طالبان کے ساتھ غیر رسمی رابطے جون میں دوحہ میں قائم ہوئے۔ ایک ذرائع نے بتایا کہ حکمرانوں کو سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ طالبان کی غیر ملکی طاقتوں پر فتح سے مسلم اکثریتی کشمیر میں سرگرم حریت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق: ’سفیر نے بھارت کی اس تشویش کا اظہار کیا کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی طرح بھارت مخالف سرگرمیوں اور دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔‘

طالبان کے گذشتہ دور حکومت میں بھارت نے روس اور ایران کے ساتھ مل کر شمالی اتحاد کی حمایت کی تھی، جس نے ان کے خلاف مسلح مزاحمت کی۔

ذرائع کے مطابق ستانکزئی، جن کے بارے میں بھارتی حکام کہتے ہیں کہ انہوں نے 1980 کی دہائی میں ایک بھارتی فوجی اکیڈمی میں افغان افسر کی حیثیت سے تربیت حاصل کی تھی، نے گذشتہ ماہ غیر رسمی طور پر بھارت سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ وہ اپنا سفارت خانہ بند نہ کرے۔


کابل ایئرپورٹ چھوڑنے سے قبل جنگی طیارے ناکارہ کردیے: امریکہ

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینیتھ مک کینزی نے کہا ہے کہ پیر کی شب افغانستان سے انخلا مکمل کرنے کا مطلب ہے کہ امریکی فوج ان تمام افراد کو نہیں نکال سکی جنہیں نکالنے کی خواہش تھی۔

جنرل کینیتھ مک کینزی کا کہنا تھا کہ جولائی سے انخلا کے اختتام تک ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد کو نکالا جا سکا ہے۔

تاہم انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’ہم ان تمام افراد کو نہیں نکال سکے، جنہیں ہم افغانستان سے نکالنا چاہتے تھے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنرل مک کینزی نے بتایا کہ امریکی فوجیوں نے دو ہفتوں پر محیط انخلا کو مکمل کرنے سے پہلے 73 کے قریب طیاروں کو ناکارہ بنا دیا تھا۔

جنرل مک کینزی کا کہنا تھا کہ ’پینٹاگون نے کابل ایئرپورٹ پر قبضہ رکھنے اور اسے چلانے کے لیے چھ ہزار کے قریب فورس تعینات کی تھی۔‘

’جب 14 اگست کو انخلا شروع ہوا تو وہ 70 ایم آر اے پی آرمرڈ ٹیکٹیکل گاڑیاں جن کی فی گاڑی قیمت ایک ملین ڈالر ہے چھوڑ گئے، تاہم ان گاڑیوں کے ساتھ ساتھ 27 ہموی گاڑیاں بھی ناکارہ بنا دی گئی ہیں۔‘


امریکہ کی شکست دیگر حملہ آوروں کے لیے ایک سبق: افغان طالبان

 

امریکی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلا کے بعد طالبان ترجمان نے کہا کے امریکہ کی شکست ’دیگر حملہ آوروں اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے سبق ہے۔‘

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل ایئر پورٹ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ دنیا کے لیے بھی ایک سبق ہے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس موقع پر ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ ’طالبان امریکہ کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات چاہتے ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو میں ذبیح اللہ مجاہد کو ایئرپورٹ پر تعینات ’بدری 313‘ فورس کے اہلکاروں سے بات کر رہے ہیں اور ان سے کہہ رہے ہیں کہ ’وہ عوام کے ساتھ نرم رویہ اختیار کریں۔‘

ذبیح اللہ مجاہد نے سکیورٹی پر مامور اہلکاروں سے کہا کہ ’ان لوگوں نے گذشتہ 20 سالوں میں بہت سخت وقت دیکھا ہے اور وہ اب سکون کے مستحق ہیں۔‘

’عوام سے نرم رویہ رکھیں تاکہ انہیں بتا سکیں کہ ہم عوام کے خادم ہیں نہ کے ان پر مسلط ہوئے ہیں۔‘

طالبان ترجمان دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گذشتہ شب امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہونے کے بعد منگل کی صبح ’فاتحانہ‘ انداز میں کابل ایئرپورٹ میں داخل ہوئے اور مختلف جگہوں کا جائزہ لیتے رہے۔


افغانستان: دو دہائیوں کی جنگ کے بعد امریکی انخلا مکمل 

دو ہفتے کی افراتفری سے بھرپور آپریشن کے بعد افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا پیر کی شب دیر سے مکمل ہوگیا اور افغانستان کی سرزمین سے آخری امریکی فوجی طیارے میں سوار ہوکر ملک چھوڑ گیا۔

 

یوں امریکی انخلا کے لیے صدر جو بائیڈن کی مقرر کردہ 31 اگست کی تاریخ سے کچھ گھنٹے قبل ہی امریکہ کی طویل ترین جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنگ اور انخلا کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک مک کینزی نے کہا آخری امریکی طیارے کابل ہوائی اڈے سے امریکی وقت پیر کی دوپہر تین بج کر 29 منٹ (کابل میں رات 12 بجے سے ایک منٹ پہلے) پر اڑے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ امریکی شہری افغانستان میں رہ گئے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ وہ ملک چھوڑ سکیں گے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیچھے رہ جانے والے امریکیوں کی تعداد 200 سے کم بتائی ’ممکنہ طور پر سو کے قریب‘ اور کہا کہ ان کا محکمہ انہیں نکالنے کے لیے کام جاری رکھے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روئٹرز کے مطابق انہوں نے فوج کی سربراہی میں ہونے والے انخلا کے مشن کو تاریخی اور بہادر قرار دیا اور کہا کہ امریکہ پیچھے رہ جانے والے شہریوں اور ملک سے نکلنے کے خواہش مند افغان شہریوں کی مدد کے لیے کام کرتا رہے گا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ امریکہ افغانستان کے ساتھ سفارت کاری اب قطری دارالحکومت دوحہ سے کرے گا، اس میں قونصل خانے کا کام اور انسانی بنیادوں پر امداد شامل  ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’امریکہ کے افغانستان سے تعلقات کا نیا باب اب شروع ہوا ہے۔ یہ ایسا ہے جس میں ہم سفارت کاری پر زور دیں گے۔‘


کابل میں طالبان کا جشن

افغانستان سے امریکہ کے آخری طیارے کے جاتے ہی منگل کی صبح کابل میں ہوائی فائرنگ اور آتش بازی کے مناظر دیکھنے کو ملے جب طالبان جنگجو اپنی فتح کا جشن مناتے رہے۔

روئٹرز کے مطابق پنٹاگون نے اعلان کیا کہ آخری امریکی پرواز پیر کی رات کے آخری منٹ روانہ ہوئی اور اب تمام امریکی فوجی ملک سے باہر ہیں۔

طالبان ترجمان نے بھی اعلان کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا: ’آج رات 12 بجے باقی امریکی فوجی بھی کابل ایئرپورٹ چھوڑ گئے اور ہمارے ملک کو مکمل آزادی مل گئی۔‘


اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے پیر کو ایک ہنگامی اجلاس میں قراردار منظور کی جس میں طالبان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہیں کہ ملک چھوڑنے والوں کو جانے کی مکمل آزادی ہوگی۔

تاہم اس قرارداد میں انخلا کے لیے کابل میں محفوظ زون قائم کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا جس کے بارے میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں گذشتہ روز کہہ چکے تھے۔

برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کو 13 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔

اس میں کہا گیا کہ سکیورٹی کونسل یہ توقع کرتی ہے کہ طالبان ’افغانستان سے جانے والے تمام افغانوں اور غیر ملکیوں کو محفوظ اور منظم طریقے سے انخلا کرنے دیں گے۔‘

قرارداد میں امید ظاہر کی گئی کہ طالبان اپنے تمام وعدوں پر پورا اتریں گے جن میں 27 اگست کا ان کا بیان بھی شامل ہے کہ افغانوں کو کسی بھی راستے بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت ہوگی۔

اس کے علاوہ طالبان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں اور افغانستان میں تمام فریقین بشمول خواتین کے ایک منظم اور انکلسیو حکومت قائم کریں۔

قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ طالبان ’افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کو دھمکانے یا حملے کے لیے استعمال نہ ہونے دیں اور نہ ہی دہشت گردوں کو پناہ دینے یا ٹریننگ یا مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا