طالبان حکومت نے انڈیا کے ساتھ تجارت میں اضافے کے لیے ہوائی راہداری کو دوبارہ کھول دیا ہے، جسے 2019 میں سابق صدر محمد اشرف غنی کی حکومت نے قائم کیا تھا۔
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ اس راستے سے کچھ سامان انڈیا پہنچا ہے۔
بی بی سی پشتو کی ایک خبر کے مطابق طالبان کی وزارت صنعت و تجارت کے ترجمان عبدالسلام جواد کے مطابق ان کی حکومت ایک معاہدے کے تحت انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
عبدالسلام جواد کا کہنا تھا کہ ’حال ہی میں انڈیا کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا، جس کے مطابق ہم فضائی راہداری کے ذریعے کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں، انشا اللہ انڈیا کے ساتھ ہمارا کاروبار جاری رہے گا۔ گذشتہ سال کے مقابلے اس سال انڈیا کو ہماری تجارت اور اشیا کی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔‘
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران افغانستان سے 30 ہزار ٹن دست کاری کا سامان انڈیا بھیجا گیا ہے۔
2020 میں افغانستان نے انڈیا کو 499 ملین ڈالر کی برآمدات کیں۔ افغانستان نے انڈیا کو جو اہم مصنوعات برآمد کیں ان میں ٹراپکل فروٹ (132 ملین ڈالر)، ریزن (111 ملین ڈالر) اور انگور (96.9 ملین ڈالر) شامل ہیں۔ گذشتہ 25 سالوں کے دوران افغانستان کی انڈیا کو برآمدات میں 18.1 فیصد کی سالانہ شرح سے اضافہ ہوا ہے، جو 1995 میں 7.87 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2020 میں 499 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔
طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر تجارت نورالدین عزیزی کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ساتھ وسیع معاہدے کرنا افغانستان کے مفاد میں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر روس اور قازقستان کو گندم کی پیداوار میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ’ہم متبادل کے طور پر انڈیا کے ساتھ گندم کی خریداری کا معاہدہ کرنا چاہیں گے‘ اور کینیڈا کے ساتھ بھی معاہدہ کرنا چاہیں گے۔
ان تازہ رابطوں پر پاکستان کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن ماضی میں اسلام آباد اپنے پڑوسی انڈیا اور افغانستان کے تعلقات سے زیادہ خوش نہیں تھا۔ اسلام آباد کی مزاحمت کی وجہ سے زمینی راستے سے تجارت نہیں ہو پا رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں کابل اور نئی دہلی کے درمیان سالانہ تجارت ڈیڑھ ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی لیکن رپورٹس کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ سطح کم ہو کر 24 ملین ڈالر رہ گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ عرصہ قبل طالبان حکومت نے فضائی راہداری کے ذریعے چین کو 20 ٹن ایندھن برآمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
قبل ازیں طالبان حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار شیر محمد عباسی ستانکزئی نے انڈیای ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انڈیا کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات کو جاری رکھے اور فضائی راہداری کو تجارت کے لیے گذشتہ چند سالوں سے کھلا رکھے۔
اس کے علاوہ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی 'ہندوستان ٹوڈے' اخبار کے ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’تاریخ میں انڈیا اور افغانستان کے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں اور ہم ان تعلقات کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘
لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود طالبان کے لیے تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ایک چیلنج ہو گا، چاہے وہ دو طرفہ تجارتی ہو یا سفارتی تعلقات۔