جی ہاں میں ہی وہ لڑکی ہوں جس نے گذشتہ ہفتے ’بیوٹی کون ایل اے‘ کی ایک نشست کے دوران پریانکا چوپڑا سے ان کی ’جے ہند‘ ٹویٹ کے بارے میں سوال کیا تھا۔ کچھ کے لیے یہ ٹویٹ پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے تناظر میں ان کا بھارتی فوج کے ساتھ یکجہتی کا واضح پیغام تھا، شاید کچھ کے نزدیک یہ بے ضرر ہو لیکن اس کی ٹائمنگ کو بہرحال نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ذرا سوچیے کہ وہ اپنے وطن کی سب سے زیادہ بااثر آوازوں میں سے ایک ہیں لیکن انہوں نے اپنی آواز لوگوں کو جوڑنے کی بجائے ان میں دشمنی پیدا کرنے کے لیے استعمال کی ہے۔
شاید ایک ایسی کانفرنس، جس کا مقصد بیوٹی مصنوعات کا فروغ تھا، اس میں جغرافیائی سیاست پر بات کرنا کچھ معیوب سی بات ہو لیکن میں یہاں اس کا مقصد ضرور بیان کروں گی۔
میں پریانکا چوپڑا کو بطور ایک مشہور شخصیت جانتی تھی اور ان کی معترف بھی تھی۔ میں بیوٹی کون میں پرانے دوستوں کے ساتھ ملنے اور ان سے رابطہ کرنے اور انہیں خوش آمدید کہنے کی غرض سے آئی تھی۔ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب کشمیر کی گھمبیر صورت حال بین الاقوامی سطح پر سامنے آرہی تھی لیکن مجھے توقع نہیں تھی کہ اس کو اتنا حقیقی اور ذاتی بنا دیا جائے گا۔ چوپڑا نے بالواسطہ طور پر اس میں پہل کر دی تھی۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں اتنی جلدی ان لوگوں کے سامنے کھڑی ہوں گی۔ میرے لیے کسی ایسی شخصیت کو سٹیج پر بیوٹی کوئین کی طرح بیٹھے ہوئے دیکھنا مشکل تھا جس نے فوجی کارروائی کی حمایت کی تھی۔ جِسے اب تک کشمیر کی اصل زمینی صورتحال کا علم نہیں تھا اور جو محض ٹویٹر پر انحصار کر رہی تھی۔
ان باتوں کو واضح کرنے کے لیے میں نے سوالات کی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ میں ابھی اس طرف جا ہی رہی تھی کہ میں نے انہیں یہ کہتے سنا کہ ’ہمیں اپنے پڑوسیوں سے پیار کرنا چاہیے۔‘ مجھے کچھ کہنا تھا۔ انہوں نے حب الوطنی کا دعوی کیا تھا - لیکن حقیقت میں وہ قوم پرستی کا مظاہرہ کررہی تھیں۔ اور یہ نہ صرف ایک سلیبریٹی کے پرستاروں کے لیے بلکہ برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے اربوں افراد کے لیے خطرناک پیغام تھا۔ وہ پہلے افراد ہوں گے جو دونوں طرف سے بڑھتی ہوئی فوجی تناؤ کے نتائج کو محسوس کریں گے۔
Priyanka Chopra tweeted during a time when we were this close to sending nukes to one another. Instead of advocating for peace she tweeted in support of the Indian army pic.twitter.com/LhbMkOW59v
— Ayesha Malik (@Spishaa) August 11, 2019
کشمیر جنوبی ایشیا کا متنازع خطہ ہے جس کے ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی دعویدارہیں۔ کئی دہائیوں سے دنیا کا یہ علاقہ ان دو جوہری طاقتوں کے درمیان کئی جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔ دونوں ممالک جو ایک دوسرے کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں دونوں طرف سے جارحیت کی وجہ سے صورتحال جنگ کی نوبت تک پہنچ گئی تھی۔
یہ معاملہ بیوٹی کون یا یونیسف کی نمائندگی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ ہمارے رہنماؤں اور عوامی شخصیات کی منافقت کو اجاگر کرنے کے بارے میں ہے۔
آج کی دنیا میں ہم لوگوں کی مستقل منافقت کی وجہ سے غیرحساس ہوتے جارہے ہیں۔
ٹوئٹر پر، خبروں میں اور یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس سے آنے والے بیانات سے یہ ظاہر ہے کہ معاملات اس قدر تیزی اور انتہا پسندانہ انداز سے بدل رہے ہیں کہ ان کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم کشمیر کے بارے میں کچھ کریں۔ اب یہ وقت ہے جب ہم ان جعلی بیانات اور اعمال کو یکسر مسترد کر دیں۔ جیسا کہ مصنفہ عروہ مہدوی نے اس ہفتے نشاندہی کی تھی کہ اداروں پر اعتماد کے فقدان نے ایک ایسا خلا پیدا کردیا ہے جس کو معروف شخصیات کے بیانات پُر کررہے ہیں۔
میرے خیال میں کسی سلیبرٹی کا کسی بھی حوالے سے بیان دینا خطرناک ہے کیونکہ اس وقت احتساب کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے جب تنظیمیں اور ادارے اپنے بیانات پر قائم نہ رہ پائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہماری انفرادی آوازیں ہماری سوچ سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ بیوٹی کون یا اقوام متحدہ کی طاقتور شخصیت کے سامنے حق کی بات کر رہے ہیں کیوں کہ سچ بولنا ہر جگہ ضروری ہے۔
ہم یہ اپنے گھروں سے شروع کر سکتے ہیں یا سری نگر کی گلیوں میں رونما ہونے والے واقعات کو دنیا کے سامنے لانے والی واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹر نیہا مسیح یا روئٹرز کے نمائندے دیویجوت گوشال کی طرح مشعل راہ بن سکتے ہیں۔
تو ہمیں استحقاق اور طاقت کے حامل افراد کو ان کے فرائض کے بارے میں یاد دہانی کرانے سے کیا چیز روک رہی ہے؟
ہماری توقعات پر پورا نہ اترنے والے رہنماؤں کو نکال باہر کرنے سے ہمیں کیا چیز روک رہی ہے؟
ہوسکتا ہے کہ یہ سوشل میڈیا پر جارحانہ ردعمل کا خوف ہو۔ ناخوشگوار تبصروں اور نفسیاتی حملوں کا امکان بہت حقیقی ہے جو ہر وقت موجود رہتا ہے۔
اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات اور اداکاراؤں پر توجہ مرکوز کرنے سے ہم اہم آوازوں اور ان کے نقطہ نظر کو کھو دیتے ہیں۔
ہم حقیقی واقعات سے ہٹ جاتے ہیں اور درست اور مستند خبروں سے محروم رہ جاتے ہیں جو واقعات کو زیادہ واضح طور پر سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یونیسف کے سفیر کا کیا کردار ہونا چاہیے۔
میں نے یہ مائیکروفون کسی کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں تھاما تھا یا کسی بات کا کریڈٹ لینے یا حقیقی معنوں میں امن کو فروغ دینے والے لوگوں میں شامل ہونے کے لیے بلکہ میرا مقصد اس بات کی نشاندہی کرنا تھا کہ یونیسف کی سفیر کے تبصرے اور اقدامات ان کے فرائض کے مطابق ہونے چاہئیں نہ کہ ان کی قومی شناخت یا ذاتی وفاداری کے مطابق۔
میں کوئی سلیبرٹی نہیں ہوں لیکن میرے پاس آواز ہے اور میں جانتی ہوں کہ کب کوئی غیرمنطقی بات کر رہا ہے۔ اگر ہم میں اتنا عزم اور حوصلہ ہو کہ وہ اپنے رہنماؤں کا احتساب کر سکیں تو ہم اس بیانیے کو تبدیل کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ اس سے شاید دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب ملے۔
© The Independent