رضاکاروں کا کہنا ہے کہ افریقہ میں پیسے دے کر معدوم ہوتے زرافوں کا شکار کرنے والے برطانوی ٹرافی ہنٹرز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
برطانی کمپنیاں ایسے سیاحتی دوروں کا بندوبست بھی کر رہی ہیں جن کے پیکج میں شکاری پہلے ہی خطرے کے شکار جانوروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
معدوم ہوتے جانداروں کے انٹرنیشنل ٹریڈ کنونشن کے مطابق 180 ممالک اس وقت زرافوں کے تحفظ پر مبنی قواعد لانے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔
اس وقت دنیا میں زرافوں کے تحفظ کے لیے کوئی عالمی تجارتی قانون موجود نہیں، جس کا مطلب ہے کہ زرافوں کی ٹرافی ہنٹنگ اور ان کے اعضا بغیر کسی روک تھام اور ریکارڈ کے درآمد اوربرآمد کیے جا سکتے ہیں۔
لیکن اگر چھ افریقی ممالک کی جانب سے پیش کردہ تجاویز منظور ہو جاتی ہیں تو زرافوں کے اعضا برآمد کرنے اور ٹرافی ہنٹنگ کا ریکارڈ منظم کرنا ضروری قرار دے دیا جائے گا۔
’خاموش معدومی‘ قرار دیے جانے والے ان اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 30سال میں زرافوں کی تعداد 40 فیصد تک کم چکی ہے۔ رضاکاروں کے مطابق اس کی وجوہات ان کے اعضا کی تجارت، رہنے کے نامساعد حالات، غیر قانونی ٹرافی ہنٹنگ اور خانہ جنگی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس تشویش کے باوجود شکاری دو ہزار ڈالرز سے بھی کم میں زرافوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ٹرافی ہنٹنگ پر پابندی کی مہم چلانے والے ایڈوارڈو گونکالیوس نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’آج دس سال پہلے کے مقابلے میں برطانی ٹرافی ہنٹرز کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ آج برطانوی سفاری کمپنیاں ایسے سیاحتی دورے کروا رہی ہیں جن میں آپ پیسے دے کر ان جانوروں پر گولیاں چلا سکتے ہیں۔ ٹرافی ہنٹرز اب ایسے جانوروں کو بھی قتل کر رہے ہیں جو بہت نایاب ہیں۔ روایتی طور پر لوگ چیتے، ہاتھی، شیر یا زیبرا کو نشانہ بناتے تھے لیکن اب کچھ مختلف جانور جیسے زرافے اور بندر بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ اب برطانوی ٹرافی ہنٹرز کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔‘
ذرائع کے مطابق ’ٹرافی ہنٹرز سے ملنے والی رقم باقی بچ جانے والے جانوروں پر خرچ کی جاتی ہے اور ایسے جانوروں کو شکار کے لیے چننا دراصل ان کے بچاؤ کے لیے اہم ہے۔‘
انٹرنیشنل فنڈ فار اینمل ویلفئیر (آئی ایف اے ڈبلیو) کے انٹرنیشنل پالیسی ڈائریکٹر میٹ کولیس کا کہنا ہے:’یہ ضروری ہے کہ اس حوالے سے زرافوں کی فہرست مرتب کی جائے کیونکہ اس وقت ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ تجارت کی وجہ سے اس کی آبادی میں کتنی کمی ہوئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کافی زیادہ ہے کیونکہ صرف ایک ملک جو زرافوں کی تجارت کا ڈیٹا رکھتا ہے وہ امریکہ ہے اور اس کے مطابق 2006 سے 2015 کے دس سال میں زرافوں کے 40 ہزار اعضا کی تجارت کی گئی۔‘