پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر محمد عمر داؤدزئی کا کہنا ہے کہ ’توقع یہ تھی کہ طالبان نے جو وعدے کیے تھے وہ وہ پورے کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘
لندن سے انڈپینڈنٹ اردو کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے سابق افغان سفیر کا کہنا تھا کہ ’توقع تھی کہ وہ اپنے رویے میں حقوق انسانی، دہشت گرد تنظیموں اور کثیر الجہتی نظام بنانے میں نرمی لائیں گے۔ ان سے متعلق انہوں نے وعدے کیے تھے لہٰذا انہیں توقع تھی کہ وعدے وفا ہوں گے اور ایک نئی صورت حال سامنے آئے گی لیکن ان کلیدی مسائل میں طالبان نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس چلے گئے۔‘
آج کل لندن میں موجود محمد عمر داؤدزئی افغان قیادت میں کافی اہم شخصیت مانے جاتے ہیں۔ وہ دو مرتبہ افغان صدر حامد کرزئی کے چیف آف سٹاف رہ چکے ہیں، جبکہ دو سال تک انہوں نے ایران میں بھی افغان سفیر کے طور پر فرائض سرانجام دیے۔ اسی وجہ سے انہیں سابق افغان صدر کے بھی قریب مانا جاتا ہے۔
اس آن لائن انٹرویو میں ان سے پوچھا کہ کیا دنیا افغانستان کو بھول گئی ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’دنیا مایوس ہوگئی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ دنیا نے پیٹھ کر لی یا ان کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ جن ممالک سے ہم بات کرتے ہیں وہ اب بھی افغانستان کے لیے خاص ٹیمیں رکھتے ہیں، خاص ادارے رکھتے ہیں اور بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں کہ حالات معمول پر آ جائیں گے اور وہ دوبارہ افغانستان کی مدد کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ یہ ممالک مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن مشکل طالبان کی جانب سے ہے۔‘
تاہم افغان طالبان کا اصرار رہا ہے کہ انہوں نے ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی تمام عالمی شرائط پوری کر دی ہیں لیکن دنیا پھر بھی انہیں تسلیم نہیں کر رہی ہے۔
پاکستان بھی طالبان کے ساتھ رابطوں (انگیجمنٹ) کی بات کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود پیش رفت نہیں ہو رہی ہے؟ کیا طالبان پر کوئی دباٰؤ نہیں ڈالا جا رہا ہے؟ اس بارے میں عمر داؤدزئی نے کہا کہ ’دنیا اور ہمسایہ ممالک کا موقف ایک جیسا ہے۔ جزئیات میں کچھ فرق ہے لیکن اجتماعی طور پر ایک ہے اور یہ کہ طالبان کے ساتھ قطع تعلق نہیں کریں گے۔ برداشت کریں گے، مذاکرات کریں گے، مفاہمت جاری رکھیں گے۔
’باضابطہ طور پر تسلیم کرنے میں مشکلات حائل ہیں۔ پاکستان کی ایک خاص صورت حال ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب سے طالبان تحریک شروع ہوئی ان کے آپس میں خاص تعلقات تھے۔ وہ رابطے اس شکل میں بھی ہیں لیکن پاکستان کی طالبان سے جو توقعات تھیں، مثال کے طور پر ٹی ٹی پی اور دیگر مسائل کے حوالے سے وہ پوری نہیں کی گئیں۔
افغانستان کے سابق وزیر داخلہ عمر داؤدزئی نے کہا کہ ’پاکستان بھی مایوس دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان نے بھی دباؤ ڈالنے کے ذرائع کھو دیے ہیں۔ طالبان اب پاکستان کے محتاج نہیں ہیں۔ البتہ دونوں بعض معاملات میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ پاکستان کا دباؤ اب اہم نہیں رہا۔‘
طالبان کسی اندرونی اختلاف کی سختی سے تردید کرتے ہیں لیکن آپ کی کیا معلومات ہیں تو عمر داؤدزئی نے کہا کہ ’طالبان اندرونی مسائل سے دوچار ہیں۔ ماضی میں جس طرح یہ ایک متحد تحریک تھیں اب نہیں ہے۔ اب مشکلات ہیں کیونکہ اس وقت تو وہ شخص ان کا رہنما تھا جو تحریک کا بانی تھا، اب رہنما کی وہ صورت حال نہیں ہے۔ موجودہ رہنما کو خود اپنی قیادت ثابت کرنے کا چیلنج ہے۔
’طالبان ایک تحریک کا تجربہ تو رکھتے ہیں لیکن حکومت چلانے کا نہیں۔ ان کے پاس علمی اساس بھی نہیں۔ حکومت چلانا علمی اساس مانگتا ہے، محض تجربے سے نہیں ہو سکتا۔ (حکومت) مشاہدے یا کامن سینس پر نہیں چلتی۔ ایک بینک کا سربراہ ایک ملا (ملا کے لیے احترام) کیسے ہو سکتا ہے؟
’گیند ان کے کورٹ میں ہے۔ یہ درست سمت میں حرکت نہیں کر رہے ہیں، ایک جگہ کھڑے ہیں یا پھر بعض جگہوں پر پیچھے جا رہے ہیں۔ اس وجہ سے ہمسایہ ممالک اور دنیا کو بھی مسائل درپیش ہیں اور ان میں اضافہ ہو گا۔‘
محمد عمر داؤدزئی کے مطابق: ’اختلافات تو ہیں۔ اس طرح کی ہر تحریک میں اختلافات ہوتے ہیں اور ہوں گے لیکن میری توقعات کے برخلاف بہت جلد سامنے آ گئے۔ کئی اہم اور اعلیٰ رہنما سٹیج پر کھڑے ہو گئے اور اپنی سوچ کا اظہار کیا۔ اختلاف پوری دنیا پر واضح کر دیا۔ میرے لیے بھی یہ بات جلد ہوئی۔ یہ اختلافات بہت گہرے ہیں۔
’انہیں ڈر ہے کہ دنیا پھر ان کے خلاف ہو جائے گی، انہیں اختلافات کے گہرے ہونے سے ڈر ہے کہ مزاحمت شروع ہو جائے گی۔ ماضی کے گروپ زندہ ہو جائیں گے۔ دنیا پھر بہانہ بنا کر فوج لے آئے گی۔ اس لیے وہ اپنے اخلافات جلد ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ بڑی سطح پر نہ پہنچ پائیں۔ تاہم اختلاف ہے۔‘
سقوط کابل کی بڑی وجہ کیا تھی؟
عمر داؤزئی ماضی کی افغان حکومتی نظام میں پہلے سے آخری دن تک شامل تھے۔ ایک وقت میں حالانکہ وہ نظام کی مخالف میں بھی چلے گئے۔ ’میرے نزدیک ایک کلیدی وجہ یہ تھی کہ دنیا کی مدد کے ساتھ نظام بنایا گیا تھا۔ جب جو بائیڈن نے اگست میں مکمل انخلا کا اعلان کیا اور یکم مئی سے امداد بند کر دی تو اس دن سے سقوط کا عمل شروع ہو گیا تھا۔
’پانچ یا چھ ایسے پہلو بھی تھے جیسے کہ افغانوں سے متعلق کہ ہمیں سیاسی میدان میں مشکل تھی، طالبان کے بغیر اکٹھے نہ ہو سکے، صلح اور مفاہمت اگر کامیاب ہو جاتی تو سقوط نہ ہوتا۔ ایک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شہروں تک سکیورٹی محدود ہو گئی اور دیہی علاقے کنٹرول سے چلے گئے، طالبان نے وہاں طاقت حاصل کی۔ طالبان کے پاس گوریلا جنگ کا تجربہ تھا جس سے انہوں نے فائدہ اٹھایا۔‘
افغانستان میں داعش کیا جڑیں پکڑ رہی ہے؟ اس بارے میں عمر داؤدزئی کا کہنا تھا کہ ’داعش تو ایک عالمی مصیبت اور دشمن ہے۔ اس خطے میں اس کی جڑیں گہری نہیں ہیں۔ خطے کا سماجی فرق ہے۔ طالبان کے ساتھ ہمارا زیادہ سماجی فرق نہیں ہے۔ طالبان بھی اسی جگہ سے اٹھے ہیں، جبکہ داعش کی سوچ ہمارے ساتھ موافق نہیں ہے۔ طالبان کی کارروائیاں جن سے لوگ مصیبت سے دوچار ہوتے ہیں وہ داعش جا سکتے ہیں۔
’میرے خیال میں محض کارروائیاں کامیاب طریقہ نہیں۔ اگر یہ اپنی قوم کو اپنے ساتھ ملا لیں ان کے دلوں میں جگہ بنا لیں تو پھر قوم داعش کو جگہ نہیں دے گی۔ اس صورت میں داعش غائب ہو جائے گی۔ ہماری اطلاعات کے مطابق داعش کمزوری کی طرف نہیں طاقت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے اسے ختم کر دیا ہے غلط بات ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ٹی پی کے مسئلے کا حل کیا ہے؟
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے زیادہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی (تحریکِ طالبان پاکستان) وزیرستان اور دیگر اضلاع میں کیسے آئی۔ یہ تو افغان طالبان کی مدد کے لیے بنائی گئی تھی۔ پھر پاکستان کے ساتھ ان کی دشمنی پیدا ہو گئی۔ پہلے تو ایسا نہیں تھا۔ (طالبان) اگر چاہیں بھی کہ پاکستان کو خوش کریں تو ان کے بس میں نہیں ہے کیونکہ خود اس کے لیے بڑی مشکل بنتی ہے۔
’دوسری بات یہ کہ کہ سب تو افغانستان منتقل نہیں ہوئے ہیں۔ بعض تو ابھی بھی ڈیورنڈ لائن کی دوسری جانب ہیں۔ یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ افغان طالبان اتنے طاقتور ہو جائیں کہ پاکستان کی توقعات پوری کر سکیں۔‘
ٹی ٹی پی کے عناصر کو پاکستان کےسرحد سے ہٹانے کی کوئی تجویز سامنے آئی تھی؟ اس بارے میں ان کا تھا کہ انہوں نے بھی اخبارات کے ذریعے پڑھا ہے۔ ’یہ قابل عمل تجویز نہیں ہے اگرچہ طالبان نے کہا ہے کہ وہ خوست میں پڑے وزیرستان کے پناہ گزینوں کے بارے میں کہا ہے کہ انہیں ہم سرحد سے دور لے جائیں گے۔ اس نے افغانستان کے اندر بھی تشویش پیدا کی ہے کہ انہیں کہاں لے کر جائیں گے۔ یہ ناقابل عمل تجویز تھی۔
’پھر یہ کہ ٹی ٹی پی تو طالبان کے نظام کا حصہ ہیں۔ باضابطہ عہدے رکھتے ہیں۔ وہ مہاجر نہیں، دوسری حالت میں ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ بیٹھنا چاہیے، اس طرح نہیں جیسے کہ دنیا ملتی ہے بلکہ اس طرح جس طرح 20 سال سے وہ مل رہے ہیں۔ وہ انہیں بتائیں کہ قوم کا دل جیتیں پھر آپ کو ٹی ٹی پی یا القاعدہ کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘
افغان معیشت کس حال میں ہے؟
عمر داؤزئی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اللہ کے فضل سے خود بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ ان کے چہرے روزانہ ٹی وی پر دیکھیں، سرخ و سفید ہو رہے ہیں۔ بہت مالدار ہوئے ہیں۔ جمہوری رہنماؤں کے مقابلے میں طالبان 20 گنا زیادہ امیر ہوئے ہیں۔ قوم غریب ہوئی ہے۔
’ایک تو قوم فرار کی حالت میں ہے تاکہ اپنے بیٹے بیٹی کو ایسی جگہ پہنچا دیں جہاں وہ سکول جا سکیں۔ اس وقت تو کچھ بھی نہیں، نہ روزگار ہے نہ کچھ اور ہے۔ قوم روز بروز غربت کی جانب بڑھ رہی ہے جبکہ طالبان متمول ہو رہے ہیں۔ انسانی امداد کے لیے اربوں کی رقوم آ رہی ہیں۔ وہ افغانی کو مستحکم کیے ہوئے ہیں۔
ان سے پوچھا کہ آپ کے دور حکومت میں جب عالمی امداد اور امریکی ڈالر مل رہے تھے، افغانوں کی حالت تو اس وقت بھی اچھی نہیں تھی؟ تو انہوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ’نہیں یہ درست بات نہیں ہے۔ ابتدا میں افغانوں کی حالت بہت خراب تھی۔ پہلے جب آپ شہر میں گھومتے تھے تو ہر شخص بچے میں غربت دکھائی دیتی تھی۔ پھر پندرہ بیس سال بہت اچھا چلا۔ غریب بہت کم ملتا تھا۔ ایک وقت میں پاکستان سے 15 لاکھ مزدور کام کر رہے تھے۔
’یہ تو آخری پانچ سالوں میں جب غیرملکیوں کی تعداد میں کمی آئی تو ان کے ساتھ ملازمت کرنے والے ڈرائیور وغیرہ بیکار ہو گئے۔ جنگ میں شدت آئی اور طالبان نے اہم شاہراہیں بند کیں، راستے انہوں نے بند کر دیے، اقتصادی منصوبے انہوں نے بند کروا دیے۔ یہ بات درست ہے کہ آخری پانچ سالوں میں معیشت میں گراوٹ آئی تھی۔ جب ہم حکومت میں آیے تو 44 فیصد لوگ خط غربت کے نیچے تھے لیکن اب اقوام متحدہ کے مطابق 97 فیصد خط غربت کے نیچے ہیں۔‘
حامد کرزئی کس حال میں ہیں؟ ہم نے سنا کہ گذشتہ دنوں انہیں انٹرویو بھی نہیں دینے دیا گیا۔ آپ ان کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
سابق افغان سفیر نے کہا کہ ’وہ اپنے گھر میں رہ رہے ہیں۔ اس وجہ سے سکیورٹی سخت ہے کہ انہیں کوئی خطرہ نہ پہنچے ورنہ طالبان کی سخت بدنامی ہوگی۔ بعض پابندیاں ان کی اپنی سکیورٹی کی خاطر ہیں۔ طالبان کی اپنی ذہنیت بھی ایسی ہے کہ وہ آزاد بات پسند نہیں کرتے۔ وہ تو قومی رہنما ہیں جب میڈیا سے بات کریں گے تو خواہ مخواہ ان کی کمزوریاں بیان کریں گے۔
’اگر افغان میڈیا ان سے بات کرے تو اسے تو یہ کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن غیرملکی میڈیا کے ساتھ تو ایسا نہیں کر سکتے، اس لیے اس کی ممانعت ہے۔ کرزئی صحت مند ہیں، اپنے وطن میں ہیں خوش ہیں۔ خاندان ان کے ساتھ ہے۔
’اشرف غنی شاید اسی لیے چلے گئے کہ انہیں اندازہ تھا کہ ان کا حال تو ان سے بھی برا ہو گا۔ اگر انہوں نے کرزئی کو اچھا رکھا ہوتا، عزت قدر کی ہوتی اور ہر محفل میں اوپر بٹھاتے تو پھر لوگ اشرف غنی کو کہتے کہ آپ یہاں ہوتے تو آپ کی بھی یہی عزت ہوتی۔ آپ کو نہیں جانا چاہیے تھا۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
پاکستان کی حالت اس خطے اور دنیا کے لیے باعث تشویش ہے۔ یہ جمہوریت کے لیے اچھا نہیں۔ ’اس سیاست سے انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اگر انہوں نے یہ ملک اچھا چلایا ہوتا تو پاکستان اس خطے کا سنگاپور بن سکتا تھا۔ اس کے اچھے امکانات تھے۔‘