’آؤ کہ توڑیں سب مل کر، خوف و ستم کی زنجیریں۔‘ یہ نعرہ #می ـ ٹو کیمپین سے کوئی سولہ برس پہلے آشا (الائنس اگینسٹ سیکشوئل ہراسمنٹ آن ورک پلیس) نے لگایا تھا۔ ’آشا‘ جنسی ہراسانی کے خلاف کام کرنے والے تقریبا 10 سول سوسائیٹی اداروں کا ایک اتحاد تھا جو 2001 میں بنایا گیا تھا۔ اس الائنس کی رہنما اور روح رواں ڈاکٹر فوزیہ سعید تھیں اور ہم کوئی درجن بھر لوگ ان کی رہنمائی میں رضاکارانہ طور پر کام کر رہے تھے۔
’آشا‘ کا مقصد جنسی ہراسانی کے مسئلے کو اٹھانا اور اس کے سدباب کے لیے مناسب قانون سازی کروانا تھا۔ دس سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد 2010 میں پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ نے اس بابت دو قوانین کی منظوری دی۔ ایک ایکٹ 2010 ہے جو کام کی جگہ پر خواتین کے خلاف ہونے والی جنسی ہراسانی کو دیکھتا ہے اور دوسرا پی پی سی کی شق "509 – اے" میں ترمیم ہے۔ اس ترمیم کے تحت جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والا کوئی بھی شخص، خاتون، بچی، بچہ، مرد یا ٹرانسجینڈر قانون کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ ان نئے قوانین کے تحت جنسی ہراسانی کے بڑی تعداد میں واقعات سامنے آئے اور ہراسانی کا شکار ہونے والی عورتوں نے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کچھ کو انصاف ملا بھی۔
میں اس مسئلے پر کام کرنے کے اپنے 18 سالہ تجربے کی، جس میں سینکڑوں خواتین کی مدد کرنا بھی شامل ہے، روشنی میں ان پہلوؤں پر تھوڑی روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک نجی ٹی وی کے پرورگرام میں گذشتہ دنوں اس پر بات ہوئی۔ ایک نقطہ یہ بیان کیا گیا کہ جنسی ہراسانی کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کام کرنے والی جگہ پر جنسی ہراسانی کے کیسز کے ثبوت ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں عام خواتین اور تحقیق کرنے والی کمیٹی کے ممبران کی تربیت کی جاتی ہے اور انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ جنسی ہراسانی کے ثبوت کیسے اکٹھے کرنے ہیں اور کیسے ان کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ جنسی ہراسانی ایک نازک معاملہ ہے لیکن اس کی علامات بہت واضح اور اثرات بہت گمبھیر ہوتے ہیں۔ عورتیں تو کیا بچوں کو بھی ان علامات کا پتہ چل جاتا ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ زیادہ تر واقعات میں ثبوت ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد پر باقاعدہ فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دوں کہ کچھ کیسز میں ثبوت نہیں ہوتے یا ثبوت لانا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے کیسز کو بھی سامنے ضرور آنا چاہیے۔
پروگرام میں بحث کے دوران مہمانوں نے جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی کچھ مشہور خواتین کی حمایت کرنے کے لیے ان کے اچھے کردار کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ تو جھوٹ بول ہی نہیں سکتیں اس لیے انہوں جنسی ہراسانی کا جو الزام لگایا ہے وہ بھی بالکل ٹھیک ہو گا۔ تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ کسی شخص کی حمایت کرنے کا یہ طریقہ اچھا نہیں ہے۔ اس سے پھر ان ساری خواتین کو آپ اکیلا چھوڑ دیں گی جن کے جھوٹ یا سچ بولنے متعلق آپ پورے یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ یا دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی حمایت صرف ’نیک‘ خواتین کو ہی حاصل ہو گی۔ اس لیے یہ بات مناسب نہیں ہے۔ جنسی ہراسانی کا شکار کوئی بھی عورت ہو سکتی ہے۔ اور جو بھی عورت اس ظلم کا شکار ہو اسے آواز بلند کرنے کا پورا حق ہے۔ اس کے لیے ’نیک‘ ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔ جو عورت بھی آواز بلند کرے اسے پوری اہمیت دی جانی چاہیے۔
یہی معاملہ جنسی ہراسانی کرنے والے کا بھی ہے۔ اس میں بھی کردار کا کوئی فرق نہیں۔ جنسی ہراسانی کا جرم کوئی بھی کر سکتا ہے۔ اس لیے جب کسی شخص پر جنسی ہراسانی کا الزام لگتا ہے تو اسے اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ صرف اس وجہ سے کسی کو معافی نہیں مل سکتی، اور نہ ملنی چاہیے، کہ لوگ اسے ایک نیک آدمی سمجھتے ہیں۔
پروگرام میں بحث کے دوران کہیں کہیں جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد اور ’چیٹنگ‘ (اپنے پارٹنر یا بیوی کو دھوکہ دینا) کے ساتھ مکس ہوتی نظر آئی۔ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ گھریلو تشدد ایک مختلف نوعیت کا جرم ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے اور بدقسمتی سے اس پر قوانین ابھی تک نہیں ہیں۔
گھریلو تشدد کو ابھی تک جرم قرار دیا گیا نہ ہی ہمارا معاشرہ اسے جرم گردانتا ہے اس لیے اس سلسلے میں عورتوں کو انصاف نہیں مل پاتا۔ ’چیٹنگ‘ ایک بالکل الگ چیز ہے یہ غلط ہے، شرمناک ہے لیکن جنسی ہراسانی یا گھریلو تشدد کی طرح کا جرم نہیں ہے۔ میرے علم کے مطابق دنیا میں کہیں بھی ’چیٹنگ‘ کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ہے اور اس کی کوئی سزا نہیں ہوتی۔ ’چیٹ‘ ہونے والے پارٹنر کے پاس الگ ہونے کا حق موجود ہوتا ہے۔ ’چیٹنگ‘ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ عورتیں بھی ’چیٹنگ‘ کرتی ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی تعداد برابر ہے۔ ’چیٹنگ‘کو کسی طرح بھی ایک جرم گردانا نہیں جا سکتا۔ یہ صرف ایک اخلاقی جرم ہی ہے۔ اس لیے اسے گھریلو تشدد اور جنسی ہراسانی جیسے بھیانک جرائم کے ساتھ مکس نہ کریں۔
جنسی ہراسانی کا جرم ساری دنیا میں ہوتا ہے لیکن جتنا عام یہ پاکستان میں ہے اتنا شاید ہی کہیں اور ہو۔ اگر کہا جائے کہ پاکستان میں رہنے والی ہر عورت جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہے تو بھی یہ مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس جرم کی سزا بہت ہی کم کسی مرد کو ملتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان دونوں ہی کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات لگے ہیں لیکن دونوں ہی کے خلاف کوئی تحقیق ہوئی نہ ان کو سزا ملی۔ البتہ عمران خان کے خلاف الزام لگانے والی خاتون کا سیاسی مستقبل تاریک ہو گیا۔ پاکستان میں یہ بہت عام ہے کہ جو بھی عورت اس جرم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے لوگ اس کے خلاف ہو جاتے ہیں، اس کی زندگی تنگ کر دیتے ہیں اور سارا نقصان اسے ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
جنسی ہراسانی ایک بہت ہی عام اور گمبھیر جرم ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانا بہت ہی ضروری ہے۔ مثبت آواز اٹھانے کے لیے میڈیا ایک اہم رکن ہے لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر پاکستانی میڈیا اس صلاحیت سے ہی عاری ہے۔ اس لیے وہ صنفی تفریق اور تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے منفی پروپیگنڈا کرتے ہیں اور ہماری نقصان دہ روایات کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ ایسے میں منیب فاروق نے ایک نہایت اہم اور نازک موضوع پر پروگرام کر کے بہت بڑا کارنامہ کیا ہے۔ یوں سمجھیں کہ میڈیا کا کچھ کفارا ادا ہو گیا ہے۔