ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں خواتین کارکنان کے ساتھ جنسی تشدد کیا جاتا ہے، انہیں اتنا مارا پیٹا جاتا ہے کہ وہ کھڑی نہیں ہوسکتی ہیں۔ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی جب برطانیوی اراکین پارلیمان نے ریاض پر دباو میں اضافہ کیا۔
کم از کم دس حقوق انسانی کی کارکنان پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق تشدد کیا گیا جس میں انہیں تحقیقات کاروں کے سامنے بوسہ لینے پر مجبور کرنا بھی شامل ہے۔
ایک خاتون کو تحقیقات کاروں نے غلط بتایا کہ ان کے اہل خانہ مرچکے ہیں، انہیں اس جھوٹ کے ساتھ ایک ماہ تک رہنا پڑا۔ تنظیم کے مطابق اسیری میں دیگر خواتین کو بجلی کے جھٹکے اور کوڑے اتنے زور سے مارے گئے کہ وہ کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جن عورتوں کو مئی ۲۰۱۹ میں حراست میں لیا گیا ان میں لوجیان الحتلل اور عذیذہ الیوسف جنہوں نے ملک میں خواتین کی گاڑی چلانے کی مہم چلائی تھی شامل تھیں۔ ان میں سے کسی پر باضابطہ طور پر نہ فرد جرم عائد کی گئی ہے اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ انہیں کوئی قانونی نمائندگی بھی حاصل نہیں ہے۔
یہ رپورٹ تب سامنے آئی جب مختلف جماعتوں کے برطانیوی اراکین پارلیمان اور بین الاقوامی وکلا نے سعودی عرب کو جنوری ۲۰۱۹ کے اواخر کا وقت دیا تھا ان خواتین تک رسائی مہیا کرنے کے لیے۔
وہ گروپ نے جس نے زیرحراست افراد کی جانچ کے لیے پینل تشکیل دیا ہے برطانیہ میں سعودی سفیر پرنس محمد بن نواف بن عبدالعزیز کو درخواست دی ہے کہ وہ دس اسیر خواتین کی گواہی حاصل کرنے دی جائے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ انتیس جنوری تک کوئی پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں گروپ ایمنسٹی اور دیگر تنظیموں کے اکٹھے کئے ہوئے الزامات جلد شائع کر دیں گے۔
سعودی حکام نے متعدد مرتبہ اسیروں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کی تردید کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطی ریسرچ ڈائریکٹر نے کہا کہ "ہم ان کارکنوں کے حالات کے بارے میں بہت فکر مند ہیں، جو تقریبا 9 ماہ کے لیے خود مختار حراست میں محض انسانی حقوق کے لیے بات کرنے کی وجہ حراست میں ہیں۔"