پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے آئندہ مالی سال 24-2023 کے لیے 750 ارب روپے کا بجٹ وزیر خزانہ انجینیئر زمرک خان نے پیر کو پیش کر دیا ہے۔
بجٹ اجلاس پیر کو تقریباً چار گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا۔
سال 2023-24 کے بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کا حجم 437 ارب روپے جب کہ ترقیاتی بجٹ پی ایس ڈی پی کا حجم 229 ارب روپے، وفاق کی ڈویلپمنٹ گرانٹس کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں کی مد میں 45 ارب روپے اور فارن پروجیکٹس اسسٹنس کی مد میں 39 ارب روپے صوبائی ترقیاتی پروگرام کے علاوہ رکھے گئے ہیں، اس طرح خسارہ 49 ارب ہے۔
بجٹ میں بلوچستان کے گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد جب کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پینشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافے کی تجویز کے ساتھ ساتھ کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے مقرر کرنے کا کہا گیا ہے۔
وزیر خزانہ کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مختلف محکموں میں 4389 نئی آسامیوں کی تجویز دی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تعلیم کے حوالے سے آئندہ مالی سال میں صوبہ بھر میں 87 نئے پرائمری سکول کھولے جائیں گے جب کہ 130 سکول اپ گریڈ کیے جائیں گے۔ اس طرح 863 نئی آسامیوں کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
بجٹ تجاویز کے مطابق غیر ملکی اور سرمایہ جاتی محصولات سے 22 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے مختلف مدات سے آمدنی کا تخمینہ پانچ سو 89 ارب 53 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہو گا۔
صحت کارڈ کے لیے 5.8 ارب روپے اور ادویات کے لیے دو اعشاریہ سات ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بلوچستان کو اس بار براہ راست اور قابل تقسیم محصولات کی مد میں 480 ارب روپے ملیں گے۔
موجودہ حکومت کے پانچ سال کے دوران میر ظہور بلیدی نے پہلے تین بجٹ اور چوتھا سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے پیش کیا، جب کہ زمرک اچکزئی نے پانچواں بجٹ پیش کیا۔
بجٹ میں تاخیر اور دوسرے مسائل کے حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان سعید نے بتایا کہ بجٹ پیش کرنے کی تاریخ پہلے 16 جون مقرر کی گئی تھی، لیکن دستاویزات تیار نہ ہونے اور پی ایس ڈی پی میں رد و بدل کے باعث اس میں تاخیر ہوئی۔
عرفان سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ موجودہ بجٹ بھی عجلت میں تیار کیا گیا ہے، آخری دنوں تک ہماری اطلاعات کے مطابق 23-2022 کے بجٹ کے منصوبوں کے لیے پیسوں کا اجرا جاری رہا، جو بجٹ سے پہلے ہی بند ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حالت یہ ہے کہ حکومت، اپوزیشن جماعتیں اور دوسری جماعتیں پبلک سیکٹر ڈویلمپنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے گرد چکر لگا رہی ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ سکیموں کو شامل کریں۔
عرفان سعید نے مزید بتایا کہ پی ایس ڈی پی میں سکیموں کو شامل نہ کرنے پر کچھ خاص لوگ ناراض بھی تھے جس کے باعث محکمہ خزانہ اور محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات (پی اینڈ ڈی) نے مزید مہلت طلب کی تھی جس کے بعد بجٹ کی تاریخ میں توسیع کر کے 19 جون کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل صوبائی وزیر خزانہ زمرک اچکزئی نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ وفاق سے صوبے کے پیسے نہ ملنے کے باعث ہمیں بجٹ ہی پیش نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) اور دوسرے مدات میں وفاق سے پیسے نہ ملنے کے باعث وزیراعلیٰ بلوچستان نے وفاقی بجٹ سے قبل قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا تھا، تاہم بعد میں وزیراعظم شہباز شریف نے پی پی ایل کے ذمے بلوچستان کے واجبات کی فوری ادائیگی اور وفاق سے متعلق دیگر مسائل کے حل کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی جسے وزیراعلیٰ بلوچستان نے سراہا تھا۔
ادھر حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ نے جمعے کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مالی بحران کے باوجود بجٹ پیش کرنے جا رہے ہیں، ریکوڈک منصوبہ 2028 میں آپریشنل ہو گا، جس کے بعد بلوچستان مالی طورپر خود مختار ہو گا۔