اونٹوں کے ’عالمی دن کے خالق‘ ڈاکٹر عبدالرازق کاکڑ سے ملیے

اس دن کو منانے کا آغاز کب سے ہوا اور یہ کس کی تخلیق تھی، یہ اعزاز بلوچستان کے ضلع لورالائی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالرازق کاکڑ کو حاصل ہے۔

آج دنیا بھر میں اونٹوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اور اس دن کی مناسبت سے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں اونٹوں کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں سیمینار اور کانفرنسز منعقد کیے جاتی ہیں۔

اس دن کو منانے کا آغاز کب سے ہوا اور یہ کس کی تخلیق تھی؟ بلوچستان کے ضلع لورالائی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالرازق کاکڑ کا کہنا ہے اس دن کو عالمی حیثیت ان کی تحقیق کے باعث ملی۔

ڈاکٹر عبدالرازق کاکڑ نے علم حیوانات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے اور وہ اونٹوں کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتے ہیں، انہیں ’کیملوجسٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر رازق کاکڑ 23 سال سے اونٹوں پر تحقیق اور کام کر رہے ہیں۔ 2014 سے وہ متحدہ عرب امارات میں العین فارمز فار لائیو سٹاک پروڈکشن سے منسلک ہیں، جہاں وہ ٹیکنیکل منیجرہیں، جو دنیا میں کمرشل اونٹوں کی پہلی ڈیری ہے۔

ڈاکٹر رازق کاکڑ نے بتایا کہ جب وہ پی ایچ ڈی کر رہے تھے اور انہوں نے اونٹوں پر تحقیق کرنی چاہی تو انہیں کہیں سے مواد نہیں ملا، اگر کہیں کچھ مواد ہے بھی تو وہ اونٹوں کے امراض کے حوالے سے ہیں، ان کی جسمانی ساخت کے حوالے سے ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی مواد نہیں تھا کہ اونٹ کیا ہے؟ اس کے فائدے کیا ہیں، اس کا مستقبل کیا ہے؟ اس کے دودھ کی کیا اہمیت ہے؟ بطور ڈیری کے جانور اور حالات کا مقابلہ کرنے والے جانور کے طور پر اس کی اہمیت کیا ہے، اس پر کچھ موجود نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا: ’جب میں نے یہ دیکھا تو محسوس کیا کہ کیوں نہ اونٹ کا ایک دن منایا جائے، جس میں ہم اونٹ کے بارے میں بات کریں اور آگاہی پھیلائیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اونٹ کتنا اہم ہے۔‘

بقول ڈاکٹر رازق کاکڑ: ’ہم نے ایک تھنک ٹینک بنایا جس کا نام ’کیمل فار لائف انٹرنیشنل‘ رکھا، جس میں دنیا بھر سے ماہرین شامل ہیں، یہ کیمل ایڈووکیسی گروپ ہے، جس میں تین سو ارکان پوری دنیا سے شامل ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ نو سال سے عرب امارات میں ایک اونٹوں کے فارم کے ساتھ منسلک ہیں۔ ’ہمارے پاس دو ہزار اونٹ ہیں، ہم روزانہ تین ہزار لیٹر کے قریب اونٹ کا دودھ نکالتے ہیں۔‘

ڈاکٹر رازق نے اپنی پی ایچ ڈی کے تحقیقی پروجیکٹ کے دوران اونٹوں کی تین نسلوں کے حوالے سے رپورٹ دی جن میں کوہی، پاوال، ریگی، شامل ہیں، جو مشکل موسمیاتی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں اونٹوں کی نسل ’بریلا‘ پائی جاتی ہے، جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کے علاوہ براہوی نسل، ریدی، خارانی اونٹ، کوہی، لاسی اور ریگی اونٹ بھی پائے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر رازق نے بتایا: ’اونٹ کا دودھ ہر عمر کے افراد کے لیے موزوں ہے۔ اس میں خاص قسم کا پروٹین ہے، جو انسانی جسم میں قوت مدافعت کو مضبوط کرتا ہے، اس میں آئرن زیادہ ہے، اس کے علاوہ اس میں وٹامن سی 10 گنا زیادہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اس دودھ کی افادیت کے حوالے سے بتایا کہ دنیا میں اس پر بہت کام ہو رہا ہے۔ آسٹریلیا میں اس کا دودھ نکال کر جلد کی حفاظت کے لیے کریمیں بنا رہے ہیں، امریکہ میں بھی اس پر کام ہو رہا ہے، افریقہ میں لوگ گائے بیچ کر اونٹ خرید رہے ہیں کیوں کہ یہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ زیادہ گرمی اور پانی کی کمی کو برداشت کرسکتے ہیں۔ 

ڈاکٹر رازق نے بتایا کہ ’جب میں اونٹ کے دودھ پر کام کرنا چاہتا تھا تو لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا کہ اس میں کیا ہے، میں جس شعبے میں تھا تو اس کے سربراہ کو جب میں نے بتایا کہ اونٹ کے دودھ پر ریسرچ کرنا چاہتا ہوں تو انہوں نے بہت سی منفی باتیں کیں لیکن میں نے اپنی تحقیق نہیں چھوڑی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ایک بار وہ شدید بیمار ہوکر چلنے پھرنے سے قاصر ہوگئے تھے جس پر انہیں اونٹ کا دودھ پینے کا مشورہ دیا گیا۔

’مجھے اونٹ اور اس کے دودھ کی افادیت نے بہت متاثر کیا اور میں نے لوگوں کی باتوں کی پروا کیے بغیر فیصلہ کیا کہ میں پی ایچ ڈی کروں گا اور وہ بھی اونٹ کے دودھ پر کروں گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ اس پر مزید بھی کام کرتے رہے اور ان چیزوں کو اپنی ویب سائٹ پر بھی شائع کرتے رہے، تاکہ عام لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔

’اس کے ساتھ دنیا میں تحقیق کرنے والوں کے ساتھ کام کرتا رہا، پھر ہم نے اونٹ کی نسلوں پر کام کیا کہ کون سی نسل زیادہ دودھ دیتی ہے۔

’یہ میری اپنی اونٹ کی کہانی ہے۔ جب میں بیمار تھا اور چلنے پھرنے سے بھی قاصر تھا۔ اونٹ میری زندگی کا حصہ رہا ہے۔ اونٹوں کے قافلے، چلتے پھرتے افغان خانہ بدوشوں اور نمکیات کے تاجروں کو دیکھ کر میرے ذہن میں اونٹ کی مضبوط تصویر بن گئی۔‘

ڈاکٹر رازق کاکڑ کو بطور انٹرنیشنل کنسلٹنٹ کیمل ڈیری، اقوام متحدہ کے ادارے برائے خوراک و زراعت نے بھی عالمی لائیو سٹاک کے ماہر کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق