’میرے بن جاؤ‘: بلیک میلنگ جیسی تلخ حقیقت کی عکاسی

میرے بن جاؤ جیسے ڈرامے ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی کرتے ہیں اس لیے بطور شہری ہمیں ان رویوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

بدھ کو مومل انٹرٹینمنٹ اور مومنہ درید پروڈکشن کے بینر تلے بننے والے ڈرامے کی 24ویں قسط نشر ہوئی اور یہ سیریل اب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے  (ہم ٹی وی سکرین گریب)

ہم ٹی وی پر نشر ہونے والا ڈراما سیریل ’میرے بن جاؤ‘ میں ایک اہم سماجی مسٔلے کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔

بدھ کو مومل انٹرٹینمنٹ اور مومنہ درید پروڈکشن کے بینر تلے بننے والے ڈرامے کی 24ویں قسط نشر ہوئی اور یہ سیریل اب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔

اس قسط میں ڈرامے کی مرکزی کردار عظمیہ (کنزہ ہاشمی) ہیں جن کو ان کے سابق منگیتر فردین (اظفر رحمٰن) کافی عرصے سے بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں، بالآخر ان کی ’نازیبا‘ ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں۔

انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور نئی ٹیکنالوجی کے بعد یہ مسٔلہ ہمارے معاشرے میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے جب مرد اپنی کسی دوست، حتیٰ کہ منگیتر یا نکاح یافتہ ساتھی کی زبردستی یا زور دے کر ایسی ویڈیو یا تصاویر بنا لیتے ہیں جن کو بعد میں انہیں بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

’میرے بن جاؤ‘ کی مصنفہ سمیرا فضل نے بھی اسی موضوع پر قلم اٹھایا اور ہدایت کار احمد کامران نے اسے انصاف کے ساتھ چھوٹی سکرین پر پیش کیا۔

اس ڈرامے کی کہانی تو اکثر کو پتہ ہی ہے جس میں عظمیہ کے بچپن کے دوست ذکی (زاہد احمد) سب کچھ جانتے ہوئے اور معاشرے کی پروا نہ کرتے ہوئے انہیں اپنا لیتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں اس طرح کی بلیک میلنگ کی شکار لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں جو ساری عمر ایک پچھتاوے کے ساتھ گزار دیتی ہیں اور کچھ معاملات میں خود کشی جیسا انتہائی قدم بھی اٹھانے سے دریغ نہیں کرتیں۔

ایسی ہی کہانی راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی خاتون فریحہ (فرضی نام) کی بھی ہے جن کے منگیتر نے ان کی ویڈیو کالز پر کئی ’نازیبا‘ ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا تھا۔

فریحہ نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کیسے اس واقعے کے بعد انہیں اپنے خاندان اور دنیا کا سامنا کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایک موقع پر تو انہوں نے خود کی جان لینے کی بھی کوشش کی۔

انہوں نے بتایا: ’ایسی شرمناک حرکت ایک ایسے شخص کی جانب سے کی گئی جو مستقبل میں میرا جیون ساتھی بننے والا تھا۔ وہ ویڈیو کالز پر عجیب فرمائشیں کرتا اور ایسا نہ کرنے پر منگنی توڑنے کی دھمکی دیتا۔

’بعد میں مطالبے ویڈیو کالز سے بڑھ کر شادی سے پہلے جسمانی تعلق تک پہنچے تو یہ سلسلہ ناقابل برداشت بن گیا۔ میرے انکار پر حسنات (منگیتر کا فرضی نام) نے ویڈیو کالز سے ریکارڈ کیے گئے کلپس کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی دھمکی دی تو میں نے اسے محض دھمکی ہی سمجھا لیکن میرے مستقل انکار پر انہوں نے کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جعلی اکاؤنٹس سے پوسٹ کر دیں اور یوں میری زندگی برباد ہو گئی۔‘

فریحہ واحد خاتون نہیں ہیں جنہیں اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سال 2020 میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کی ہیلپ لائن کے آغاز کے صرف ایک ماہ میں 100 سے زائد خواتین نے آن لائن ہراساں کرنے، بلیک میلنگ اور بدنامی کے خلاف شکایات درج کرائی تھیں۔

ہیلپ لائن کے آغاز کے بعد ہر سال اس تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

ایف آئی اے کے سائبر کرائم کے ایڈیشنل ڈائریکٹر عمران ریاض نے گذشتہ سال بتایا تھا کہ  کہ صرف کراچی میں زیر التوا شکایات کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ سائبر کرائم کی ہیلپ لائن 9911 سے جمع کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ  زیادہ تر کالیں لاہور، اسلام آباد، کراچی، راولپنڈی اور ایبٹ آباد سے درج کرائی گئیں۔

زیادہ تر خواتین اور لڑکیوں نے اپنے سابق دوستوں، منگیتروں اور حتیٰ کہ شوہروں کے خلاف شکایات درج کرائیں جو ان کی ذاتی تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ انہیں بلیک میل یا پھر ان سے زبردستی تعلقات استوار کر سکیں۔

میرے بن جاؤ جیسے ڈرامے ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی کرتے ہیں اس لیے بطور شہری ہمیں ان رویوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ