کچھ دہائیاں قبل تک صوبہ سندھ کی معاشرت میں پیتل اور تانبے کے برتنوں کا استعمال بہت عام تھا تاہم وقت بدلتا گیا اور ان کی جگہ دوسرے برتنوں نے لے لی ہے۔
جب سندھ میں پیتل اور تانبے کے برتنوں کا استعمال عام تھا تو یہاں ان کے بنانے والے کاریگر بھی بہت ہوا کرتے تھے۔ سندھی زبان میں تانبے اور پیتل کے برتن بنانے والے کو ٹھاٹھاکر کہا جاتا ہے۔
لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے پیتل اور تانبے کے برتنوں کا رواج ختم ہوا ان کے کاریگر بھی ناپید ہوتے گئے۔
حیدرآباد شہر میں عامر اب بھی پیتل اور تانبے کے برتن بناتے ہیں۔
انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں عامر نے بتایا کہ ان کے آبا و اجداد کا تعلق انڈیا سے تھا اور وہیں وہ پیتل اور تانبے کے برتن بناتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے پیتل اور تانبے کے برتن بنانے والے بہت کاریگر ہوا کرتے تھے۔ ’آج تو لوگوں کو علم ہی نہیں کہ تانبا کسے کہتے ہیں۔‘
عامر کا دعویٰ تھا کہ اس وقت صرف ان کا ہی کارخانہ بچا ہے جس میں پیتل اور تانبے کے برتن بنتے ہیں۔
عامر کا خیال تھا کہ تانبے کے استعمال میں کمی کی وجہ اس کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا پہلے پیتل یا تانبے کے برتن کو قلعی کروانے کا خرچ 200 روپے آتا تھا جبکہ اب وہی کام ہزار سے 1200 روپے میں ہو رہا ہے۔
’اکثر لوگوں نے تو تانبے کے برتن بیچ کر سٹیل کے برتن خرید لیے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ تانبے کا چھوٹا سا برتن بھی کم سے کم تین ہزار روپے میں مل رہا ہے، جبکہ جس برتن میں ایک سے ڈیڑھ کلو گرام چیزیں آ جاتی ہیں اس کی قیمت سات سے آٹھ ہزار روپے ہے۔
عامر نے کہا کہ جن گھروں میں بزرگ موجود ہیں وہاں پیتل اور تانبے کے برتن اب بھی استعمال ہو رہے ہیں۔