اسلام آباد کے نواحی دیہاتوں میں پانی کی تلاش کے لیے سالوں پرانا ڈاؤزنگ کا طریقہ کار اب بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
زمین کے اندر پانی کی تلاش کے اس طریقے کی کوئی سائنسی حقیقت تو نہیں ہے لیکن محمد یامین، جو اسلام آباد کے قریب کوٹ جنڈا کے رہنے والے ہیں، اس طریقے سے پانی کی تلاش میں یہاں کی مکینوں کی مدد کرتے ہیں۔
یامین کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً 25 یا 30 سال سے یہ کام کررہے ہیں اور وہ آج تک تقریباً پانچ ہزار جگہوں پر نشان لگا چکے ہیں اور ہر جگہ پانی آجاتا ہے۔
یامین نے بتایا کہ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ اس کے لیے دو تانبے اور سٹیل کی تاریں ہوتی ہیں جو تقریباً سوا دو فٹ لمبی ہونی چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’چیک کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ہم قدم قدم چلتے ہیں اور جس جگہ یہ تاریں مل جائے وہاں نشان لگا دیتے ہے۔ دونوں تاریں جب مل جاتی ہے تو یہ تصدیق ہو جاتی ہے کہ زمین کے اندر اس جگہ پانی ہے۔ ‘
لیکن دوسری طرف، مجیب الرحمان جو چونترہ گاؤں میں بورنگ ڈریل آپریٹر ہے، کا کہنا ہے کہ اس چیز کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ پانی ہوگا۔ ’یہ تُکے والی بات ہوتی ہے۔‘
انہوں نے اب تک جہاں جہاں چیک کیا ہے کئی جگہوں پر اندازہ صحیح بھی ہوجاتا ہے۔ کہیں غلط بھی ہوجاتا ہے۔
مجیب الرحمان کا کہنا تھا کے یامین بھی یہی کہتے ہیں کے پانی اللہ دیتا ہے، وہ بس جگہ پر نشان لگا دیتے ہیں اور کہتے ہیں بسم اللہ کر کے شروع کر لو۔
مجیب الرحمان نے ہکا: ’یامین بھی کوئی گارنٹی نہیں دیتا ہے بس اپنے تجربے سے یہ کہے دیتا ہے کہ یہاں نیچے پانی ہے۔‘
محمد یامین کا کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہے۔ ’میرا یہی روزگار ہے، ہر دوسرے تیسرے دن لوگ مجھے بلا لیتے ہیں کسی نہ کسی جگہ کیونکہ کمپنی والے تو پانی چیک کرنے کا 50 ہزار سے تو کم نہیں لیتے لیکن لوگ مجھے کوئی ہزار دیتا ہے کوئی پانچ سو دیتا ہے لے لیتا ہوں۔ جو کوئی خوشی سے دے میں کبھی زبردستی نہیں مانگتا۔ مجھے بھی اللہ روزی دے دیتا ہے اور اگلے بندے کا بھی مسلہ حل ہوجاتا ہے۔‘
مجیب الرحمان بورنگ ڈریل آپریٹر کا کہنا تھا کہ ’میں نے اب تک یامین کے لگائے نشانات پر بورنگ کی ہے ان میں سے سو میں سے پچاس صحیح ہوتے ہیں اور پچاس نہیں بھی۔‘