شمال مشرقی شام میں دریائے جغ جغ کے کنارے پر واقع دھول سے بھری اور تاریک ورکشاپ میں برتن ساز مشاک انٹرانک پیٹروس گیلی مٹی کو مختلف شکلوں میں ڈھالنے کے لیے برتن بنانے کا قدیم پہیہ استعمال کرتے ہیں۔
85 سالہ شامی برتن ساز کا خاندان 450 سال سے اس فن سے وابستہ ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: 'یہ پیشہ ورثے کی طرح ایک سے دوسری نسل کو منتقل ہوا۔ اب میرے بیٹے نے اسے اپنا لیا ہے۔'
مشاک انٹرانک پیٹروس کی ورکشاپ قامشلی شہر کے قریب واقع ایک کچے مکان میں بنی ہوئی ہے۔ یہ شہر کرد حکام کے زیر انتظام ہے جو شمال مشرقی شام کے بڑے علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ورکشاپ میں برتن، انہیں بنانے کے آلات اور روایتی انداز میں تیار کیے گئے مرتبان بکھرے ہوئے ہیں جن پر دھول جمی ہے۔ پیٹروس اور ان کے بیٹے اپنا زیادہ تر وقت نم آلود جگہ پر گزارتے ہیں، جسے گرم رکھنے کے لیے پرانا چولہا استعال کیا جاتا ہے، جس میں لکڑیاں جلتی ہیں۔
پیٹروس نے بتایا: 'میں اپنے ہاتھوں سے مٹی صاف نہیں کرنا چاہتا کیونکہ مجھے یہ اچھی لگتی ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کم عمری میں اپنے بیمار والد کی جگہ لی اور خاندان کے بڑے برتن ساز بن گئے۔ اب وہ اپنے فن میں ماہر ہیں اور اس ہنر کو بیٹے تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا: 'جب میں ورکشاپ کا دروازہ کھولتا ہوں اور اندر اپنے بیٹے کو کام کرتا دیکھتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ یہ ایسا فن ہے جسے محفوظ رہنا چاہیے۔'
شام میں نو برس سے جاری جنگ میں 387000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ پیٹروس اور ان کا خاندان اپنے گھر اور ورکشاپ کے ساتھ بڑی حدتک نقصان سے محفوظ رہے۔ پیٹروس کے دو بیٹے انٹو اور یریوان ہیں۔
پیٹروس نے اپنے بیٹے کے بارے میں کہا: 'اس کے ہاتھوں میں توازن کی ضرورت ہے، جیسا کہ سرکس کے فن کار کو ہوتی ہے، جو تنی ہوئی رسی پر چلتا ہے۔'
برتن تیار کرنے کے پہیے پر بیٹھ کر 43 سالہ انٹو مٹی کے گلدان کو اپنے ماہر ہاتھوں سے شکل دیتے ہیں۔ اس دوران ان کے والد انہیں دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ برتن سازی کاہنر سیکھنے کے لیے بہت پرجوش ہیں۔ انہوں نے بتایا: 'میں دو دن بھی برتن بنانے کا کام نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ میرے ہاتھوں کو اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اگر خدا نے مجھے بچہ دیا تو میں اسے یہ ہنر اسی طرح سکھاؤں گا، جس طرح میرے والد نے مجھے سکھایا۔'