خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے مصروف ترین کاروباری مرکز ’ڈینز ٹریڈ سینٹر‘ میں ماریہ بنگش نامی خاتون کی دکان ہر کسی کی توجہ کا مرکز ہے۔
کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والی ماریہ تقریباً پانچ سال سے پرانے استعمال شدہ افغانی ملبوسات کا کاروبار کامیابی کے ساتھ آن لائن کر رہی تھیں اور دو ماہ قبل ہی انہوں نے یہ دکان کھولی، جسے وہ خود چلاتی ہیں۔
بقول ماریہ دکان کھولنا ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے کیونکہ آغاز میں دوسرے دکانداروں کی جانب سے کافی شکایات کی گئیں کہ یہ ایک خاتون ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارے کاروبار پر بھی کافی اثر پڑے گا۔ لیکن انہوں نے بتایا کہ ’دکان مالک کو جب اس حوالے سے معلوم ہوا تو انہوں نے مجھے نکالنے کی بجائے میری حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ آپ کے آنے کے بعد مزید خواتین کو بھی دکان کھولنے کا موقع مل جائے گا۔‘
ماریہ بنگش نے بتایا کہ شروع میں بلاوجہ مرد حضرات دکان میں آ کر ویسے ہی بیٹھ جاتے اور انہیں گھور گھور کر دیکھتے تھے کہ ’یہ عورت ہے، دکان دار ہے۔‘
لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اب ان تمام چیزوں کو اپنے طریقے سے ڈیل کرنا سیکھ چکی ہیں۔
ماریہ کہتی ہیں کہ دکان انہوں نے اس لیے کھولی کیونکہ پاکستان میں زیادہ تر لوگ مارکیٹوں میں چیزیں خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماریہ نے بتایا کہ دکان کھولنے کے بعد وہ ماہانہ دو سے چار لاکھ روپے آسانی سے کما لیتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ افغانی ملبوسات کو افغانستان سے پاکستان امپورٹ کرتی ہیں جس کے بعد کپڑوں کی صفائی کے لیے انہوں نے مزید دس خواتین کو بھی اس روزگار میں شامل کر رکھا ہے جو کپڑوں کی مرمت، دھونے اور استری کا کام کرتی ہیں۔
ماریہ ان کپڑوں کی مطلوبہ رفوگری یا صفائی کے بعد ان کی ویڈیو بناتی ہیں اور انہیں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پوسٹ کرتی ہیں، جن کی قیمت 150 ڈالر سے لے کر 300 ڈالر تک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کپڑوں کی ڈیمانڈ امریکہ اور یورپی ممالک میں سب سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں صرف 20 فیصد ہے۔
ماریہ افغانی ملبوسات کے علاوہ افغانی ثقافتی جیولری کی فروخت کا کام بھی کر رہی ہیں اور وہ مستقبل میں اپنے کاروبار کو مزید بڑھانے کے ساتھ خواتین کے لیے کارخانہ کھولنے کا عزم بھی رکھتی ہیں۔