’ہر کسی کو معلوم ہے کہ افغانستان کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں، خواتین پر پابندیاں بھی ہیں لیکن آن لائن بزنس چلا کر خود بھی کماتی ہوں اور ساتھ میں اپنی فیملی کو بھی سپورٹ کرتی ہوں۔‘
یہ کہنا ہے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں رہنے والی ملائکہ محمدی کا جو کابل میں کپڑوں کا آن لائن بزنس چلاتی ہیں اور اس کام میں ایک غیر سرکاری تنظیم اصیل ان کی معاونت کرتی ہے۔
ملائکہ محمدی ’ویلج برینڈ‘ کے نام سے دکان چلاتی ہیں اور اس میں افغانستان کے روایتی کپڑے، ہزارہ برادری کے کپڑے اور شالیں وغیرہ رکھتی ہیں۔
ویلج برینڈ میں تمام مصنوعات ہاتھ سے بنائی جاتی ہیں جس میں تمام عملہ بھی خواتین پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔
ملائکہ نے بتایا کہ ’ہم دستکاری کا کام کرتے ہیں مثلا ہزارہ کلچر کے کپڑے، ہزارہ کے شال، افغانی کپڑے (گگرہ) بھی بناتے ہیں اور ساتھ میں عام پہننے کے روایتی کپڑے بھی بناتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب کوئی گاہک آن لائن آرڈر دیتی ہے تو وہ اپنی بنائی ہوئی مصنوعات آسٹریلیا، امریکہ اور پاکستان پہنچاتی ہیں اور اسی مقصد کے لیے اصیل نامی تنظیم نے ان کے لیے ایک ویب سائٹ بنائی ہے۔
ملائکہ کے مطابق: ’افغانستان میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی ہے لیکن ہم گھر سے یہ کام کر رہے ہیں اور اتنا ممکن ہو گیا ہے کہ اس کمائی سے گھر کے اخراجات چل سکیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ افغانستان اور باہر رہنے والے لوگ ان کی ویب سائٹ پر جا کر آسانی سے آرڈر بک کر سکتے ہیں اور بغیر کسی مسئلے کے وہ مطلوبہ چیز گاہک کو پہنچائی جائے گی اور خریداری کرنے سے افغانستان کے کسی خاندان کا چولہا جلے گا۔
افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق متعدد شعبوں میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ ہائی سکولوں میں طالبات کی تعلیم پر بھی تقریباً ایک سال قبل پابندی لگا دی گئی تھی۔
تاہم طالبان حکومت نے کئی بار اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ ’ابھی خواتین کی تعلیم کے لیے انتظامات مکمل نہیں ہیں اور جب انتظامات مکمل ہو جائیں گے تو خواتین کی تعلیم پر پابندی ختم کر دی جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اصیل نامی غیر سرکاری تنظیم اسی مسئلے کے حل کے لیے خواتین کو دہلیز پر روزگار فراہم کرتی ہے۔ تنظیم کی عہدیدار مدینہ متین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہماری تنظیم ٹیکنالوجی کی مدد سے خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
’ہم نے مختلف خواتین جو دستکاری کا کام کرتی ہیں انہیں روزگار شروع کرنے میں مدد دی ہے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں اور گھر کے اخراجات برداشت کر سکیں۔‘
افغانستان تقریباً گذشتہ 40 سال سے جنگی صورت حال کا شکار رہا ہے اور یہاں ہزاروں خواتین اس جنگ سے متاثر ہوئی ہیں۔ مدینہ کے مطابق ان کی تنظیم زیادہ تر انہی خواتین کی مدد کرتی ہے جو جنگ سے متاثر ہوئی ہیں۔
ان کے مطابق ’ہمارے پاس زیادہ تر رجسٹرڈ خواتین ایسی ہیں جو جنگ میں اپنے شوہر، بھائی یا والد کو کھو چکی ہیں۔ جبکہ افغانستان کی سابق حکومت کے لیے کام کرنے والی خواتین بھی ان میں شامل ہیں۔‘
مدینہ کے مطابق ان کی تنظیم اب تک تقریباً 600 مرد و خواتین کی مدد کر چکی ہیں۔
نوٹ: اس رپورٹ کو مرتب کرنے میں اصیل نامی غیر سرکاری تنظیم نے معاونت فراہم کی ہے۔ یہ رپورٹ افغان خواتین پر ویڈیو رپورٹس کی سیریز ’بااختیار افغان خواتین‘ کا حصہ ہے۔