پاکستان کی وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے پاکستان میں موسیقی کے فروغ کے لیے پہلی بار ایک مربوط اور جامع پالیسی لانے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس ضمن میں اس پالیسی کا پہلا خاکہ تیار کیا جا چکا ہے جسے مشاورت کے بعد باقاعدہ پالیسی کی شکل دے دی جائے گی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات نے امید ظاہر کی کہ ’اس پالیسی کے اجرا سے موسیقی کی صنعت اور اس سے وابستہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوگی جس سے مجموعی طور پر اس فن کو فروغ ملے گا۔‘
مریم اورنگزیب کی جانب سے پیش کردہ اعلان کے مطابق ’نئی پالیسی میں جملہ حقوق (کاپی رائٹس) کو تحفظ دینا اولین ترجیح ہوگا جبکہ چربہ سازی سمیت میوزک انڈسٹری کو درپیش دیگر مسائل حل ہوں گے۔‘
پیش کردہ خاکے کے مطابق پبلک پرفارمنس جیسے کنسرٹس، موسیقی کی تخلیق یعنی پروڈکشن، اس کی ڈسری بیونیشن، اس کے دورانیے، موسیقی کی بنیاد سے استفادہ کرکے کوئی نئی تخلیق یا ایڈاپٹیشن اور دیگر تکنیکی معاملات کو جملہ حقوق کے ڈھانچے میں لانے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
اس تمام اقدامات سے ’ اینڈ یوزر لائسنس‘ کا معاملہ بھی حل ہوجائے گا، اور میوزک ورکرز کے بنیادی قانونی حقوق کا تحفظ ہوگا۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ ’حکومت کی خواہش ہے کہ موسیقی تخلیق کرنے والے، اسےگانے والے، لکھنے والے، اور دُھن بنانے والوں کے قانونی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اس بابت موسیقی کی فروخت، اس کا چربہ بنانے سے متعلق دیرینہ مسائل حل کیے جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پالیسی خطے کے ممالک مروجہ قوانین اور عالمی معیار کو سامنے رکھ کر تیار کی گئی ہے۔‘
علاقائی موسیقی
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’مقامی زبانوں میں تیار کیے جانے والے گانوں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات زیرغور ہیں اور وہ بھی اس پالیسی کا حصہ ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرانے گانوں کو محفوظ کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’موسیقی معاشرے کی عکاسی کرتی ہے جو قوم کی تہذیب، ثقافت اور شناخت میں کردار ادا کرتی ہے۔ بد قسمتی سے 1970 کے بعد اس جانب توجہ نہیں دی گئی ہے جس وجہ سے پاکستان اور میوزک انڈسٹری دونوں کو نقصان ہورہا ہے۔‘
حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ان اقدامات پر موسیقی سے وابس افراد نے ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔
اکثریت نے اسے خوش آئند تو کہا ہے مگر ناکافی بھی قرار دیا ہے۔
موسیقار و گلوکار شیراز اپل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس وقت پاکستان کے بیشتر فن کاروں نے عالمی سطح پر کاپی رائٹس کا معاہدہ کرلیا ہے۔ حکومت اس معاملے میں بہت دیر کرچکی ہے۔‘
تاہم ان کا خیال ہے کہ ’ملک بھر میں ریڈیو چینلز پر چلائے جانے والے گانوں سے رائلٹی ملنی چاہیے جیسے دنیا بھر میں ملتی ہے۔ دوسری جانب ثقافت کے فروغ کے لیے حکومت کو ملک بھر میں عوامی مقامات پر پرفارم کرنے کی سہولتیں فراہم کرنی چاہییں۔‘
معروف گلوکار و موسیقار علی ظفر نے انڈینڈینٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے پیش کردہ ان تجاویز کو سراہا اور کہا کہ ’شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی حکومت نے موسیقی کے لیے سنجیدہ قدم اٹھایا ہے۔‘
ان کے مطابق ’موسیقی کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے یہ بہت ہی بہترین عمل ہے کہ ان کی تخلیق کے جملہ حقوق (کاپی رائٹس) کے تحفظ کے لیے تفصیلی قوانین متعارف کروائے جائیں لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ ان قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عام موسیقاروں یا گلوکاروں کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہی نہیں کہ وہ مقدمے بازی میں الجھیں یا اپنی تخلیق کے چوری ہونے کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھا سکیں۔‘
علی ظفر نے حکومت کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ’اس سلسلے میں حکومت کا ایک خصوصی شعبہ قائم کرنا چاہیے جس میں اس صنعت سے وابستہ افراد ہونے چاہیے جو اس بارے میں تجربہ رکھتے ہوں‘
’کیونکہ عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک سرکاری ملازم کا اس معاملے میں اس قدر تجربہ نہیں ہوتا اور دلچسپی بھی کم ہوتی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے۔‘
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’حالیہ بجٹ میں فنکاروں کی فلاح و امداد کے لیے رقم رکھی گئی ہے۔ اب وہ کسی ضرورت مند تک کیسے پہنچے گی۔‘
’اگر اسے بروقت مدد نا ملی تو کیا فائدہ، اس لیے ایک ٹیم ہو جو ان معاملات کو دیکھے کیونکہ ایک وفاقی یا صوبائی وزیر سارے معاملے نہیں دیکھ سکتا۔‘
گلوکارہ نتاشا بیگ نے اس ضمن میں کہا کہ ’دیر سے ہی سہی لیکن اس جانب کچھ قدم تو اٹھائے ہی جارہے ہیں۔‘
انہوں نے حکومت کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ’دنیا بھر میں موسیقی ایک فیکٹری کی طرح کام کرتی ہے۔ لیکن پاکستان میں انفراسٹرکچر ہی ناپید ہے۔ یہاں کنسرٹ کرنے کے لیے جگہ موجود نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آلات موسیقی اور موسیقی تخلیق کرنے کے لیے ضروری سامان پر سے درآمدی ڈیوٹی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔‘
’پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کا اس ضمن میں اہم کردار ہوتا تھا جہاں ادائیگی، تلفظ، دھن اور شاعری کا خیال رکھا جاتا تھا جو اب نہیں ہوتا۔ موسیقی کے چینل ہی نہیں ہیں حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔‘
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ ’بھارت، جنوبی کوریا اور چین کی طرز پر پبلشنگ سوسائٹی کا قیام عمل میں لائے تاکہ کسی بھی موسیقار کی تخلیق کو کسی بھی ریسٹورنٹ، یا کسی کمرشل طور پر استعمال کی صورت رائلٹی جمع کرکے فنکار کو دیتے ہیں۔‘
نتاشا بیگ نے آخر میں کہا کہ ’بطور ایک خاتون وہ پاکستان میں موسیقی کے مستقبل کے لیے پر امید تو ہیں۔ مگر حال ہی میں چند شہروں میں ان پر پرفارم کرنے پر صرف خاتون ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی تھی جو افسوسناک ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیوژن بینڈ کے موسیقار عمران مومنہ المعروف ایمو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے اور اگر ان اعلانات پر عمل ہوجاتا ہے تو موسیقی کے میدان میں بہت سے لوگ سامنے آئیں گے اور پووری صنعت ہی ترقی کرجائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پالیسی ایک طرف، شہری اور دیہی فنکاروں کے لیے ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنی موسیقی عوام تک پہنچا سکیں اور موسیقی کی تخلیق میں بھی ان کی معاونت کی جارہی ہو۔‘
ایمو نے کہا کہ ’ٹیکنالوجی میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے کہ ’اس ضمن میں بھی فنکاروں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے کام کو بہتر انداز میں سرانجام دے سکیں۔‘
ایمو نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ڈیجیٹل مواد کے لیے ایک مربوط ضابطہ اخلاق بنانے کی ضررت ہے تاکہ کوئی نوسر باز کسی فنکار کا حق مار کر خود شہرت حاصل نہ کر سکے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس میں کاپی رائٹس سے آگاہی کا بھی انتظام کیا جانا چاہیے۔‘
پاکستان ٹیلی ویژن کے ایگزیکٹو پروڈیوسر محسن جعفر کا موسیقی پر بہت کام ہے۔ انہوں نے اس پالیسی پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ابھی بہت سے معاملات تفصیل طلب ہیں اور اگر دیکھا جائے تو ماضی میں بھی اس طرح کے معاملات میں بڑی کمپنیاں یا پلیٹ فارم فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ عام فنکار کو اس کا نقصان ہوتا آیا ہے۔‘
کاپی رائٹس پر ان کا کہنا تھا کہ ’اگر دیکھا جائے تو آج تک سب سے زیادہ پی ٹی وی کے گانے چرائے گئے ہیں اور کئی فلموں میں استعمال کیے گئے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ایسا ہوا ہے کہ بہت سا ایسا میوزک ہے کہ وہ تھا تو ہی ٹی وی کا لیکن اس کے ڈیجیٹل رائٹس کسی اور نے رجسٹر کروالیے ہیں اور میوزک کمپنیاں کہتی ہیں کہ جو پہلے آگیا وہی اس کا مالک ہے۔‘
محسن جعفر نے کہا کہ ’میوزک کی صنعت کے ورکر کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے گا یہ ایک سوال ہے کیونکہ موسیقار اور سازندے کی تعریف ہی میں ابھی تضاد پایا جاتا ہے۔ دوسری جانب اس پالیسی میں کلاسیکی موسیقی کی ترویج کا کوئی ذکر نہیں جو سرکاری سرپرستی کی سب سے زیادہ متقاضی ہے۔‘
’حکومت پاکستان کو میوزک کی صنعت کی جانب توجہ پر پر اس صنعت سے وابستہ افراد سراہ رہے ہیں مگر انہیں ڈر ہے کہ یہ اعلانات تک ہی محدود نہ رہے۔‘