خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے تعلق رکھنے والے اعجاز سرحدی کا دعویٰ ہے کہ اس وقت وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں سریندہ بجانے والے واحد فنکار ہیں۔
اعجاز کو یہ فن وراثت میں ملا ہے۔ ان کے دادا استاد پزیر خان آل انڈیا ریڈیو میں سریندہ بجاتے تھے اور انہیں مہاتما گاندھی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا جبکہ ان کے والد منیر سرحدی اور خود اعجاز سرحدی کو سریندہ بجانے پر پاکستان میں صدارتی ایوارڈ مل چکا ہے۔
60 سالہ اعجاز سرحدی نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے اپنے والد منیر سرحدی کی زندگی میں سریندہ نہیں سیکھا تھا، لیکن ان کے انتقال کے بعد انہیں سریندہ بجانے کا شوق پیدا ہوا اور آٹھ سال کی محنت کے بعد انہوں نے سریندہ بجانا سیکھ لیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ 1992 سے سریندہ بجا رہے ہیں اور اب تک تقریباً 19 مختلف ممالک میں پرفارم کرچکے ہیں۔
اعجاز سرحدی نے بتایا کہ ’میرے دادا استاد پزیر خان آل انڈیا ریڈیو میں ملازم تھے اور وہاں سریندہ بجاتے تھے۔ میرے والد اعجاز سرحدی، جو صدارتی ایوارڈ یافتہ تھے، نے میرے دادا سے انڈیا میں سریندہ بجانا، گانا گانا اور طبلہ بجانا سیکھا اور پھر پاکستان آکر یہاں بجاتے تھے۔‘
اعجاز سرحدی نے دعویٰ کیا کہ اس وقت پورے پاکستان میں صرف وہ ہی سریندہ بجا رہے ہیں اور نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں سریندہ بجانے والا دوسرا کوئی نہیں ہے۔ جس طرح ان کا گھرانہ سریندہ بجاتا ہے، ویسے کوئی بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سریندہ کلاسیکل موسیقی میں بھی ہوتا ہے اور فوک موسیقی میں بھی بجایا جاتا ہے۔
’سریندہ کا ساز ایسا ہے کہ کوئی دال پکائے اور اسے دیسی گھی کا تڑکہ دے تو یہ تڑکے والا کام کرتا ہے۔ دال میں دیسی گھی کا تڑکہ ہو تو اس کا سواد بہت زیادہ ہو جاتا ہے، تو سریندہ کے ساتھ موسیقی میں سواد اور مزہ آجاتا ہے۔‘
اعجاز سرحدی نے بتایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ افغانستان کی ایجاد ہے، لیکن سریندہ ساز خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے وادی تیراہ میں تیار کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے پہل سریندہ میں بکرے کی آنتوں کی تاریں لگائی جاتی تھیں، لیکن ان کے دادا نے اس میں تبدیلی کرکے سٹیل کی تاریں لگا دیں، اس میں جدت پیدا کی اور اس کی آواز تبدیل کروائی۔
اعجاز کے مطابق سریندہ بازار میں دیگر آلاتِ موسیقی کی طرح نہیں ملتا، اس کو بنوانا پڑتا ہے۔
اعجاز نے بتایا کہ انہیں گذشتہ برس صدرِ پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ بھی ملا تھا۔ ’میرے والد منیر سرحدی کو بھی سریندہ بجانے پر صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا، جس پر میں بہت خوش ہوں اور یہ میرے لیے باعثِ فخر اور عزت کی بات ہے۔‘
فنکار سریندہ کیوں نہیں سیکھتے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال پر اعجاز سرحدی نے بتایا کہ ’سریندہ بہت مشکل ساز ہے اور اسے سیکھنے میں بہت ٹائم لگتا ہے۔ تقریباً آٹھ دس سال میں ایک فنکار سریندہ بجانے کے قابل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے سریندہ بجانے کے فنکار نہیں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر حکومت کی جانب سے میرے لیے کوئی اکیڈمی کھولی جائے تو میں لوگوں کو سریندہ سکھانے کے لیے تیار ہوں اور جو بھی مجھ سے سریندہ بجانا سیکھنا چاہتے ہیں، وہ میرے پاس آسکتے ہیں اور مجھ سے سیکھ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے کلچر ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے فنکار کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی۔ ’ابھی حال ہی میں لوک میلہ ہوا ہے، جس میں ہمیں نظر انداز کیا گیا جو افسوس کی بات ہے۔‘
اعجاز سرحدی نے کہا کہ ’کلچر ڈیپارٹمنٹ والے صدارتی ایوارڈ یافتہ فنکاروں کو جانتے تک نہیں کہ منیر سرحدی کون تھا اور اعجاز سرحدی کون ہے؟‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’سریندہ کو صرف شوق کی حد تک سیکھنا چاہیے، روزگار کے لیے نہیں کیونکہ اس کا روزگار ختم ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے فنکار کی قدر نہیں ہے اور اب فنکار کی وہ عزت بھی نہیں رہی۔ جتنا بھی بڑا آرٹسٹ ہے وہ گھر میں بیٹھ گیا ہے، کام نہیں رہا۔‘