ہمارے ساتھ ایک عجیب نفسیاتی معاملہ ہے۔
فی البدیہہ جتنے بڑے جلسے میں جو مرضی گفتگو کروا لیں، لیکن اگر کسی محفل میں لکھی ہوئی تحریر پڑھ کر لوگوں کو سنانی پڑ جائے تو ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، آنکھوں کے آگے ترمرے ناچنے لگتے ہیں، ہاتھ یوں لرزتے ہیں جیسے موبائل وائبریشن موڈ پر ہو، اور ہم کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر بات ٹال دیتے ہیں۔
اس کی کوئی خاص وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ البتہ کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ اگر آج فروئڈ زندہ ہوتا اور وہ ہماری تحلیلِ نفسی کی ٹھان لیتا تو شاید ہمارے لاشعور میں دبا ایک پرانا واقعہ کھود نکالتا اور اس کا تعلق ہماری نقاہتِ لسانی سے جوڑ دیتا۔
خیر فروئڈ نہیں تو کیا ہوا، ہم خود ہی یادوں کے کاؤچ پر لیٹ کر اپنی تحلیلِ نفسی کیے دیتے ہیں، لیکن چونکہ مولوی کا تعویذ خود اس پر کام نہیں کرتا، اس لیے معلوم نہیں اس سیشن کا ہمیں کتنا فائدہ ہو گا، مگر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟
دو تین دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم نئے نئے ہائی سکول سے انٹر کالج پہنچے تھے۔ ویسے تو ان دو عمارتوں میں آدھے کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ نہیں تھا، لیکن ہمارے لیے یہ اتنی ہی بڑی ارتقائی جست تھی جیسے سب سے پہلا جانور پانی سے نکل کر خشکی پر پہنچا ہو۔ کہاں سکول کہ جہاں اسمبلی سے دو منٹ لیٹ ہونے پر پی ٹی آئی حوالدار بختیار خان اسی اسمبلی کے 1600 لڑکوں کے سامنے آدھے گھنٹے تک کان پکڑوائے رکھتا تھا، اور بال کانوں تک پہنچ گئے تو پورے فٹ بال گراؤنڈ میں ’ڈڈو چال‘ کرواتا تھا، کہاں کالج کا ماحول جہاں اندر کلاس ہو رہی ہے اور آپ مزے سے باہر لان میں بیٹھے مونگ پھلیاں ٹونگ رہے ہوں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
دونوں تعلیمی اداروں کے درمیان رات اور دن کا فرق سکول کی سیاہ ملیشیا کی وردی کے مقابلے پر کالج کی سفید شلوار قمیص کی یونیفارم بھی واضح تھا۔
کالج پہنچتے ہی ایک چیز نے اپنی طرف یوں کھینچ لیا جیسے شہد کی مکھی کو شیرہ، اور وہ تھی کالج کی لائبریری۔ ایسا نہیں ہے کہ سکول میں لائبریری نہیں تھی، ضرور تھی اور دسویں بی کی ایک مقفل الماری پر مشتمل تھی۔ البتہ آپ اس ’لائبریری‘ کو الماری کے دھندلے شیشوں کے پار دور سے دیکھ سکتے تھے، چھو نہیں سکتے تھے۔ اس کی وجہ (اور خاصی معقول وجہ) یہ تھی کہ ہم سے پچھلے سال یا اس سے پچھلے سال کچھ لڑکوں کو کتابیں ایشو کی گئیں جو ان نالائقوں نے گم کر دیں یا پھاڑ ڈالی تھیں۔
جز وقتی لائبریرین ڈرائنگ ماسٹر تھے، جو ایک ٹانگ سے تھوڑا لنگڑا کر چلتے تھے (یہ ہم نہیں بتائیں گے کہ لڑکوں نے انہیں کیا نام دیا تھا)۔ انہوں نے ریکارڈ نہیں رکھا تھا کہ کون سی کتاب کس لڑکے کو ایشو کی گئی تھی، اور شنید تھی کہ ہیڈماسٹر صاحب، جنہیں ڈرائنگ ماسٹر سے کسی اور وجہ سے پرخاش تھی، انہوں نے ان کتابوں کی قیمت ڈرائنگ ماسٹر کی تنخواہ میں سے کاٹ لی تھی۔
ظاہر ہے اب کون ڈرائنگ ماسٹر صاحب کو الزام دے سکتا ہے کہ جب تک وہ لائبریرین رہے، دسویں بی کی کتابوں والی الماری کا موٹا تالہ کبھی نہیں کھلا، اور ہم انہیں ایسی ہی للچائی نظروں سے دیکھتے رہے جیسے بھوکی بلی پنجرے میں بند طوطے کو دیکھتی ہے۔
کالج میں اس کے بالکل الٹ تھا۔ یہاں ایک بڑے کمرے میں باقاعدہ لائبریری قائم تھی جس کے شیلفوں میں ہزاروں کتابیں تھیں بلکہ ایک مہربان قسم کے کل وقتی لائبریرین صاحب بھی تعینات تھے جو ایک وقت میں دو کتابیں دو ہفتے کے لیے ایشو کرتے تھے، بلکہ ساتھ میں مزید پڑھنے کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے اور کتابیں تجویز بھی کر دیتے تھے۔
ہمارے لیے یہ لائبریری ایسے ہی تھی جیسے بقول کیٹس، کوئی ماہرِ فلکیات پہلی بار طاقتور دوربین سے آسمان کا مشاہدہ کرتا ہے اور جب جب زاویہ بدلتا ہے، اس پر نئے جہانوں کے در کھلتے جاتے ہیں۔
جلد ہی ہم اپنے کارڈ کے علاوہ دوسرے لڑکوں کے کارڈ بھی استعمال کرنے لگے اور ایک ساتھ چھ چھ، آٹھ آٹھ کتابیں اکٹھی ایشو کروا کے گھر لے جانے لگے۔
کلب علی خاں فائق کی مرتب کردہ اور مجلس کی جانب سے ٹائپ میں شائع کردہ میر صاحب کی چھ جلدی کلیات انہی دنوں میں چاٹ ڈالی، بلکہ اس کا انتخاب بھی کیا، جس کے بہت سے شعر آج بھی یاد ہیں۔
نسیم حجازی کے تمام ناول تین چار ہفتوں میں یکے بعد دیگرے نمٹا ڈالے، جن کا ایک فقرہ بھی یاد نہیں۔ اردو تنقید کی پہلی کتاب بھی اسی دوران پڑھی، ڈاکٹر سید عبداللہ کی ’نقدِ میر۔‘ پھر سودا، درد، مصحفی، آتش، غالب، اقبال کی باری آئی۔ ڈپٹی نذیر احمد کی تمثیلیں، پریم چند کے ناول، امراؤ جان ادا، فردوسِ بریں، فسانۂ آزاد، کرشن چندر، منٹو اور بیدی کے افسانے، ابنِ انشا کے سفرنامے، شفیق الرحمٰن کی شگفتہ تحریریں، پطرس بخاری کے معجز نما مضامین وغیرہ بھی اسی لائبیریری سے نکال نکال کر پڑھے۔ اس کے بعد اسلامی اور ہندوستانی تاریخ کی باری آئی۔
قصہ مختصر یہ کہ چھ آٹھ ماہ بعد ہی مطالعے کا بوجھ اتنا ہو گیا کہ ہم اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگ گئے اور چاہے کسی سے کسی بھی موضوع پر گفتگو ہو رہی ہو، ہمیں کہیں نہ کہیں سے کھینچ تان کر جگہ جگہ میر و غالب کے شعر پڑھنے اور تاریخی حوالے دینے کی عادت پڑ گئی۔ لیکن ایک دن یہ غبارہ پھٹا اور یوں پھٹا کہ کان ابھی تک اس بگ بینگ سے جھنجھنا رہے ہیں۔
ہوا یوں کہ ایک دن ہم گھر بیٹھے ’تزکِ بابری‘ کے مطالعے میں مگن تھے کہ امی نے دکان سے کوئی چیز لینے بھیجا۔ گاؤں کی اکلوتی دکان خواجہ بابا کی تھی اور پنجاب کی چوپالوں یا سرحد کے حجروں کا حکم رکھتی تھی۔ ہر شخص جسے گھر یا کھیت پر کوئی کام نہیں ہوتا تھا، اسی دکان کے اندر آٹے دال کی بوریاں پر بیٹھا یا باہر تھڑے پر دھوپ سینکتا ملتا تھا۔
یہیں تازہ خبروں، گرماگرم افواہوں اور کھٹے میٹھے سکینڈلوں کا بھی تبادلہ ہوا کرتا تھا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ دکان بیک وقت اپنے دور کے ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے فرائض انجام دیتی تھی۔
ہم پہنچے تو حسبِ معمول 10 سے 15 لوگ وہاں بیٹھے یا کھڑے گپوں میں مشغول تھے۔ یہیں گاؤں کے مضافات سے ملک نامی ایک دہقان بھی آیا ہوا تھا۔ خواجہ بابا نے سودا سلف دینے کے بعد اسے ایک خط بھی پکڑا دیا۔ خواجہ بابا کے پاس یہ خط کہاں سے آیا، کیا وہ دکاندار کے علاوہ ڈاکیے بھی تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ڈاکیہ الگ تھا، مگر گھر گھر جانے کی زحمت کی بجائے سارے خط دکان پر چھوڑ جاتا تھا کہ ہر کسی نے جلد یا بدیر یہیں آنا ہے تو وہ کیوں مفت میں گلی گلی گھوم کر جوتیاں چٹخاتا پھرے۔
خواجہ بابا کی دکان پر موجود جمگھٹے میں کئی پڑھے لکھے بھی تھے مگر ملک کو شاید ہمارے چہرے سے کچھ زیادہ ہی علم و فضل ٹپکتا نظر آیا اس لیے اس نے باقی سب کو نظر انداز کر کے خط ہمیں پکڑا دیا کہ پڑھ کر سناؤ۔
ہم نے ایک فاتحانہ نگاہ سے سب کو دیکھتے ہوئے لفافہ چاک کیا۔ یہ خط ملک کے بیٹے صابر نے بھیجا تھا جو بچپن میں ہمارے ساتھ کھیلا ہوا تھا، ایک عرصہ باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کرتا رہا، پھر سال دو سال پہلے فرنٹیئر فورس میں بھرتی ہو گیا تھا۔ مضبوط ہاتھ پاؤں اور چوڑے چکلے ہڈ والا صابر چٹا ان پڑھ تھا مگر سنا تھا کہ فوج والوں نے ان پڑھ سپاہیوں کی خواندگی کے لیے کوئی پروگرام شروع کیا ہے جس سے استفادہ کر کے اس نے اپنی زندگی کا پہلا خط لکھا تھا۔
ہم نے خط پڑھنا شروع کیا۔ اس دوران وہاں موجود سارے لوگ ایک دائرہ بنا کر ہمارے گرد جمع ہو گئے کہ شاید خط میں کوئی دلچسپ بات سننے کو ملے۔ آج کی زبان میں یوں سمجھ لیجیے جیسے ہم اس وقت ’آن ایئر‘ تھے۔
ہم نے خط پڑھنا شروع کیا۔ پہلا فقرہ آسان تھا: ’یہاں خیریت ہے اور آپ کی خیریت نیک مطلوب چاہتا ہوں۔‘ اس کے بعد بریک لگ گئی۔ صابر نے ظاہر ہے کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے لکھنا شروع کیا تھا اور شاید اس کے گٹھے ہوئے دہقانی ہاتھ درانتی کی ہتھی یا بندوق کے گھوڑے پر زیادہ رواں تھے اور ابھی قلم کی نزاکتوں کے عادی نہیں ہو سکے تھے، اس لیے خط کے لکیر دار کاغذ پر لکھی سطروں کی یہ درگت بنی تھی جیسے بدمست بھینسوں (بھینسے کی جمع، بھینس کی نہیں) کا ریوڑ مکئی کا کھیت روندتا ہوا چلا گیا ہو۔ سطریں جگہ جگہ آپس میں دو متحارب لشکروں کی طرح دست و گریبان تھیں۔ بعض لفظوں پر اس نے قلم ہل کی طرح چلایا تھا کہ نوک کاغذ کو پھاڑ کر دوسری طرف نکل گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب ہماری یہ حالت ہے کہ ایک درجن سے زیادہ مشتاق چہروں کے دائرے میں گھرے ہوئے ہم صابر کا لکھا ہوا، بلکہ لکھا ہوا کیا، پٹخا ہوا، رگیدا ہوا، گھسیٹا ہوا خط پڑھنے بلکہ پڑھنے کیا، ٹامک ٹوئیاں مارنے میں غلطاں ہیں۔
کبھی دو تین لفظ پڑھ کر چلتے ہیں مگر آگے گلی بند پاتے ہیں۔ واپس پلٹتے ہیں کہ پچھلے لفظوں سے کچھ اشارہ ملے مگر وہاں بھی اندھیرا ملتا ہے۔ ستم یہ کہ اس وقت میر صاحب کے کسی شعر نے ہماری دست گیری کی، نہ ظہیر الدین بابر ہماری کمک کو آیا۔ دو منٹ ہی میں ماتھے پر پسینہ اور زبان میں لکنت آ گئی۔ ادھر ملک ہے کہ اس کی بےقراری بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ بار بار کہتا ہے، ’آگے پڑھو، جلدی کرو۔‘
ہم: ذرا دم تو لینے دو، پڑھ ہی تو رہا ہوں۔
ملک: تو جلدی پڑھو نا، میں نے اسے ایک ضروری کام کا کہا تھا، اس کے بارے میں کیا لکھا ہے؟
ہم: ابھی میں وہاں نہیں پہنچا، تھوڑا صبر کرو۔ یہ لکھائی پڑھائی کا معاملہ ہے، تمہاری گھاس کی کٹائی نہیں ہے، اس میں وقت لگتا ہے۔
یہ کہہ کر ہم دوبارہ خط سے الجھ گئے، مگر یوں جیسے کوئی ماہرِ لسانیات سو سال سے موہنجودڑو سے برآمد ہونے والی ٹھیکریوں پر کندہ زبان کی گتھی سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور یہی تعین نہیں کر پا رہا کہ آیا یہ واقعی کوئی زبان ہے یا کسی بیزار کمھار نے ویسے ہی وقت گزاری کے لیے برتن پر ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچ دی ہیں۔
ہم نے صابر کا خط تیسری چوتھی بار شروع سے شروع کیا، ’یہاں سب خیریت ہے اور آپ کی خیریت۔۔۔‘
یہاں ملک کا فیوز اڑ گیا۔ اس نے جھپٹ کر خط ہمارے ہاتھ سے چھین لیا، اور اسی کاغذ سے ہماری طرف اشارہ کر کے سارے مجمعے کو مخاطب کر کے کہنے لگا، ’یہ حال ہے آج کل کی تعلیم کا۔ ایک خط تک نہیں پڑھ سکتے اور بڑے پڑھے لکھے بنے پھرتے ہیں۔ ہت تیرے کی!‘
یہ کہہ کر وہ خط نیفے میں اڑس کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا اور ہم اپنے گھر کی طرف۔ وہ بکتا جھکتا بڑبڑاتا، ہم سر نیوڑائے ہوئے۔
فروئڈ تو یقیناً اسی واقعے کو ہماری باآوازِ بلند تحریر نہ پڑھ پانے کی وجہ قرار دیتا، مگر جب اس کی باقی تھیوریاں رد ہو چکی ہیں تو ہم اس تھیوری پر کیوں یقین کریں؟