سیاحوں کو وزیرستان جانے کی ترغیب نہیں دیں گے: حکومت

مقامی انتظامیہ کے مطابق عیدالاضحی کے موقع پر اس سال لگ بھگ دو لاکھ سیاحوں نے شمالی وزیرستان کا رخ کیا۔

رزمک کے قریب سیاحتی علاقے ڈنکن کی فائل فوٹو جس میں سیاح علاقے کا رخ کر رہے ہیں (تصویر: گوگل میپس/شایان)

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ سیاحت کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان ماضی کے مقابلے میں اب اگرچہ محفوظ ہے لیکن سیاحوں کو اس علاقے میں جانے کی ترغیب نہیں دی جائے گی۔

محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹر جنرل کا یہ بیان ان خبروں کے بعد آیا جن میں مقامی انتظامیہ اور عسکری ذرائع کے مطابق عیدالاضحی کے موقع پر اس سال لگ بھگ دو لاکھ سیاحوں نے شمالی وزیرستان کے سیاحتی مقام رزمک کے علاوہ اور پہاڑی علاقے شوال کا رخ کیا۔

شمالی وزیرستان طویل عرصے تک کالعدم  تحریک طالبان پاکستان ’ٹی ٹی پی‘ کا گڑھ رہا اور دیگر عسکری تنظیموں کے جنگجو بھی اس علاقے میں چھپے رہے لیکن 2014 میں افغان سرحد سے ملحقہ اس علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف بڑا فوجی آپریشن کیا گیا۔

شمالی وزیرستان کی ضلعی انتظامیہ اور وہاں تعینات عسکری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اب اس علاقے میں امن قائم ہے اور یہاں تک آنے والے تمام راستے کھلے ہیں۔

لیکن خیبر پختونخوا کے محکمہ ثقافت وسیاحت کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) محمد بختیار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ شمالی وزیرستان اب محفوظ ہے لیکن وہ پھر بھی عوام کو شمالی وزیرستان جانے کی ترغیب نہیں دیں گے۔

’ابھی انفراسٹکرچر اور سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ علاقہ دور افتادہ ہے اور بیچ میں کوئی رکاوٹ، خطرہ یا مسئلہ درپیش آ سکتا ہے۔ ایسے میں اگر لوگوں کو شمالی وزیرستان جانے کی ترغیب نہیں دیں گے اور خدانخواستہ کچھ برا ہوا تو ذمہ داری ہم پر عائد ہو گی۔‘

محمد بختیار نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت شمالی وزیرستان میں سیاحوں کے لیے قیام گاہوں کی تعمیر کے منصوبے پر کام کر رہی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ لوگوں میں ابھی بھی خوف ہے اور اسی لیے زیادہ تر مقامی لوگ ہی ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’پچھلی عید پر ہم نے اورکزئی کو بطور نیا سیاحتی مرکز قرار دے کر وہاں سہولیات اور قیام گاہوں کا بندوبست کیا اور اس کی کافی تشہیر بھی کی لیکن وہ حکمت عملی فی الحال ناکام رہی ہے۔‘

عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کے مقامی لوگوں کو روزگار کے ذرائع فراہم کرنے اور سیاحت کو فروغ  دینے کے لیے وہ انہیں مستقل قریب میں ’ایئر بی اینڈ بی‘ ویب سائٹ پر اپنے حجرے یا قیام گاہیں کرایہ پر دینے کے لیے آمادہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس لیے یہ سوال ڈائریکٹر جنرل سیاحت سے بھی کیا گیا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ’اب اگرچہ شمالی وزیرستان میں وائی فائی انٹرنیٹ کی سہولت  کئی علاقوں میں  موجود ہے، لیکن اس کے باوجود یہ تجربہ ناکام ہونے کا خدشہ ہے۔‘

’ہمارا کلچر اس طرح کا نہیں ہے۔ کوئی بھی اپنے گھر حجرے میں انجان لوگوں کو ٹھہرانا اچھا نہیں سمجھتا۔ تاہم اگر انہیں ایسا کرنا پڑ جائے تو وہ کبھی اس کے پیسے وصول نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ تجربہ اورکزئی میں کیا گیا تو وہ ناکام ہو گیا۔‘

شمالی وزیرستان سیاحت کے لیے جانے والے کون تھے؟

نجی وسرکاری نیوز چینلز سمیت سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی سیاحوں کی ویڈیوز کے بعد ان سوالات نے جنم لیا کہ یہ ’لاکھوں‘ سیاح کون تھے اور شمالی وزیرستان کے دور افتادہ مقامات تک کیسے پہنچے اور بنیادی سہولیات سے محروم اس خطے میں سیاحوں کے لیے قیام اور طعام کا بندوبست کیسے ہوتا ہے اور کیا ایک عام شہری بھی شمالی وزیرستان سیاحت کے لیے جا سکتا ہے؟

ڈپٹی کمشنر ریحان گل خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صرف رزمک داخل ہونے والے سیاحوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ رہی جب کہ دیگر سیاح شمالی وزیرستان کے دوسرے علاقوں میں گئے۔ عسکری ذرائع نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مجموعی طور پر شمالی وزیرستان میں داخل ہونے والے سیاحوں کی تعداد اس مرتبہ دو لاکھ 19 ہزار رہی۔

ریحان گل نے بتایا کہ شمالی وزیرستان آنے والوں میں سے اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع  بنوں، کرک، لکی مروت، کوہاٹ  وغیرہ سے تھا ’جن کو نہ صرف راستوں کا علم ہے بلکہ اکثر کی وزیرستان میں رشتے داریاں اور دوستیاں بھی ہیں۔‘

شمالی وزیرستان تک جانے والے راستوں کی صورت حال

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم اب انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عسکری و غیر عسکری تمام ادارے ایک بات پر متفق ہیں کہ اب ’شمالی وزیرستان آمدورفت کے لیے کھل گیا ہے۔ تمام راستے کھلے ہیں اور کوئی بھی پاکستانی باشندہ اب شمالی وزیرستان بلا روک ٹوک سفر تو کرسکتا ہے۔‘

عسکری ذرائع نے بتایا کہ گو کہ آمدورفت کے راستے تو کھلے ہیں لیکن شمالی وزیرستان میں عام عوام کے قیام کے لیے ابھی کوئی خاص بندوبست نہیں ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر رزمک رحمداللہ خان  نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زیادہ تر سیاحوں کی توجہ کا مرکز رزمک ہے۔ ’عید الاضحی پر پشاور سے میرے دس دوست آئے تھے، جن کو راستے میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا۔‘ اسسٹنٹ کمشنر نے بتایا کہ ’اگر گاڑی اپنی ہو تو پشاور سے رزمک تک پہنچنے میں چھ سے سات گھنٹے لگ جاتے ہیں۔‘

تاہم دوسری جانب علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اگر راستہ کلیئر نہ ہو یا چیک پوسٹ پر رکاوٹ کا سامنا ہو تو صرف بنوں  سے رزمک تک پہنچنے میں آدھے سے زیادہ دن لگ سکتا ہے۔

شمالی وزیرستان کے مقامی کریم وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کب کس چیک پوسٹ پر آگے بڑھنے سے روک دیا جائے۔

’جن سیاحوں کا آپ نے سنا یہ زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو شمالی وزیرستان سے کوچ کرنے والے آئی ڈی پیز کے ساتھ اپنے علاقوں میں دوستی اور رشتہ داریاں کر بیٹھے ہیں۔ اس لیے ان کو مقامی افراد کے پاس رات گزارنے کی جگہ مل جاتی ہے۔‘

میران شاہ پریس کلب کے صدر صفدر داوڑ نے بتایا کہ ’عید کے موقع پر فوج اور صوبائی حکومت خصوصی انتظامات کرتی ہے۔ اسی لیے سیاح جوق درجوق داخل ہوتے ہیں۔ لیکن عام دنوں میں صورتحال قدرے مختلف ہوتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان