افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع قدامت پسند شمالی وزیرستان میں محکمہ تعلیم کی خاتون ضلعی افسر کے مطابق ان کی جانب سے بعض اساتذہ کو فارغ کرنے کے فیصلے کے خلاف مزاحمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی شمالی وزیرستان کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (اے ڈی او) انیقہ توقیر سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’انضمام سے قبل شمالی وزیرستان میں مشترکہ نظامِ تعلیم کی پالیسی تھی، جس کی وجہ سے طالبات کے تعلیمی اداروں کی باگ ڈور بھی مردوں کے ہاتھ میں تھی۔
’ایک سال قبل جب میری تعیناتی ہوئی تو میں نے الگ نظام کے لیے بھاگ دوڑ شروع کی اور خواتین اساتذہ اور طالبات کے لیے بھی وہی مراعات مانگیں، جو مردوں کو حاصل تھیں۔ اس دوران جو سکول فعال نہیں تھے، ان کو فعال کیا اور جو اساتذہ ڈیوٹی پر نہیں آرہے تھے، ان کو حاضر ہونے کا کہا۔ ’اسی طرح جو اساتذہ نہیں آئیں ان کو ٹرمینیٹ کیا۔‘
انیقہ نے مزید کہا کہ ’یہ ڈی ای او کے دائرہ اختیار میں ہے۔ کسی کو دوبارہ بحال نہیں کیا، لہذا یہ الزام بھی درست نہیں۔ میرے پاس باقاعدہ ثبوت ہیں، جو میں کسی بھی عدالت کے حکم پر پیش کرسکتی ہوں۔‘
خاتون افسر کے حق میں حال ہی میں تقریباً 50 خواتین اساتذہ نے احتجاج بھی کیا۔ ان خواتین اساتذہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ’شمالی وزیرستان جیسے پسماندہ علاقے میں تعلیم کی اعلیٰ کوششوں کو بدنام کرنے کے خلاف‘ احتجاجاً نکلی تھیں۔
احتجاجی خواتین کے مطابق: ’میران شاہ پریس کلب کے رکن ایک صحافی نے انیقہ توقیر کے خلاف بدعنوانی اور بے بنیاد فیصلے صادر کرنے جیسے الزامات عائد کیے تھے اور ان الزامات کا ثبوت ویڈیوز کی صورت میں موجود ہے۔‘
مظاہرین کے مطابق: ’ضلعی پولیس نے صحافی کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی جبکہ میران شاہ پریس کلب نے بھی ان کا بائیکاٹ کیا۔‘
کچھ عرصہ قبل میران شاہ پریس کلب کے رکن ایک صحافی (نور بہرام) نے ضلعے کی خاتون ایجوکیشن افسر(ڈی ای او) انیقہ توقیر اور شمالی وزیرستان میں محکمہ تعلیم کی باگ ڈور سنبھالنے والے ایک افسر کے خلاف بدعنوانی اور بے بنیاد فیصلے صادر کرنے جیسے الزامات عائد کیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الزامات لگانے والے نور بہرام کے مطابق: ’ای ڈی او نے لاکھوں روپے کی خرد برد کی اور ایٹا و این ٹی ایس ٹیسٹ پر بھرتی ہونے والی کئی ٹیچرز کو اپنی ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر نکال دیا۔ میرٹ پر آنے والے اساتذہ کو نکالنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے جو نہیں اپنایا گیا اور جب دباؤ آیا تو کئی ٹیچرز کو ٹرمینیٹ کرنے کے باوجود دوبارہ بحال بھی کیا گیا۔‘
صحافی کے مطابق ان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ کس طرح کتابوں اور سہولیات مہیا کرنے کے نام پر بدعنوانی کی گئی۔ انیقہ توقیر ان الزامات سے انکار کرتی ہیں۔
میران شاہ پریس کلب کے صدر صفدر داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’متعلقہ صحافی نے صحافت کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا، جس کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں خواتین کی تعلیم پر بلاوجہ انگلیاں اٹھیں اور یہ بات سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ضلعے اور صوبے میں پھیل گئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’دراصل متعلقہ ڈی ای او شمالی وزیرستان کی پہلی خاتون افسر ہیں، جنہوں نے یہاں کے محکمہ تعلیم کو مردوں سے الگ کرنے اور فعال بنانے میں مثالی کردار ادا کیا۔‘
سابق قبائلی علاقوں میں ماضی میں سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی حاضری ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔ بعض واقعات میں تو بعض صحافی بھی صحافت کے علاوہ استاد کی ملازمت بھی ساتھ ساتھ کرتے رہے ہیں۔