گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کی سرحد پر واقع چلاس یوں تو گرم مزاج شہر ہے مگر یہ برفیلی وادیوں اور پاکستان کے شمال کا دروازہ بھی ہے۔
مانسہرہ، بالا کوٹ اور ناران کے راستے بابو سر ٹاپ سے اتریں تو زیرو پوائنٹ چوک سے ہی شاہراہ قراقرم مسافروں کو دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ گلگت اور سکردو لے جاتی ہے۔ اس طرح بائیں جانب صرف تین کلومیٹر کی دوری پر آباد یہ شہر نظرانداز ہو جاتا ہے۔
اگر بشام، شانگلہ اور کوہستان سے ہو کر چلاس پہنچیں تو ضلع دیامر کا یہ ضلعی ہیڈ کوارٹر خوبصورت شہر لگتا ہے۔ داسو، اپر کوہستان، لوئر کوہستان، کومیلا، داسو-سازین، شتیال اور ہربن کے پہاڑوں کی تلخی سے گزر کر آئیں تو چلاس ایک دل کش شہر محسوس ہوتا ہے۔
کوہستان کے اضلاع میں ہونے والی عسکریت پسندی کے واقعات نے اس پورے خطے کے تاثر کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ 2012 کے وسط میں مہندی کی ایک گھریلو تقریب کے دوران بھائی کا رقص دیکھنے والی پانچ لڑکیوں کے قتل اور پھر اس پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس نے اس علاقے کے امن پر سوالیہ نشان ثبت کر دیے۔
مخصوص مسلک کی شناخت کے حامل 40 افراد کو ان کے بچوں کے سامنے مسافر بس سے اتار کر مار دیا گیا تھا۔
داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی انجینیئرز کو بھی جان سے جانا پڑا، جبکہ ایسے بہت سے دیگر واقعات کے بعد لوگ بشام اور کوہستان کی طرف سے گلگت بلتستان کے سفر کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
ہم نے پہلی بار اس راستے سے دن کی روشنی میں طویل سفر کیا اور پھر چلاس پہنچے تو یہ شہر بہت مہمان نواز لگا۔
سطح سمندر سے 950 میٹر کی بلندی پر واقع یہ شہر دنیا کی مشہور چوٹی نانگا پربت کا انتظامی ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ فیری میڈوز جانے والے سیاحوں کے لیے قریب ترین شہر چلاس ہے، جہاں بہترین ہوٹل اور بینک بھی موجود ہیں۔ یہ علاقہ سلاجیت، چلغوزے اور صنوبر کے جنگلات کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔
چلاس سے 61 کلومیٹر دور رائے کوٹ پل سے ایک راستہ دائیں جانب بلند ہوتا ہے اور تاتو گاؤں سے ہوتا ہوا پاکستان کی دوسری بلند ترین ’قاتل‘ چوٹی تک جاتا ہے۔ سال 1953 میں عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما ہرمن بوہل یہاں آئے تھے تو انہوں نے نانگا پربت کے پہلو میں آباد سبزہ زاروں کو فیری میڈوز کا نام دیا تھا۔
چلاس یوں تو گلگت بلتستان کا شہر ہے مگر کوہستان کے لوگ چونکہ اسی شہر میں کاروبار کرتے ہیں، اس لیے یہاں کی روایات اور رسوم گلگت سے زیادہ کوہستانی ہیں۔
شہر چلاس، دریائے سندھ کے کنارے پر سانس لیتا ہے، اس لیے چلاس کی بے آب و گیاہ ویرانی اور وسعت بھی سندھی مزاج کی حامل ہے۔ چلاس کے قریب، دریائے سندھ کی اترائی میں بدھ عہد کی چٹانیں ہیں، جو دریا کے ریتلے کناروں میں سے ابھر کر اپنی پہچان کرواتی ہیں۔ ان چٹانوں پر ہزاروں برس قدیم نقش کھدے ہوئے ہیں، جن کو غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ نقش جانوروں اور شکاریوں کے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہاتما بدھ کے گیان کے چند لمحے بھی نقش ہیں، جو بدھ یاتری چین سے تکشیلا تک سفر کرتے تھے، ان کے ہاتھوں کی لکیریں بھی نقش ہیں۔ ہزاروں چٹانوں پر مہاتما بدھ کے زائرین کے نقوش کنندہ ہیں۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق پتھروں پر یہ نقش بھی پتھر کے اوزاروں سے بنائے گئے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمانہ قدیم میں چلاس بھی ریاست کامبوجا کا حصہ رہا ہو گا۔
بابو سر ٹاپ سے ضلع دیامر کی حد شروع ہو جاتی ہے اور قراقرم پر بونر فارم، گونر فارم اور رائے کوٹ بھی چلاس کی ریوینیو حدود میں واقع ہیں۔ یہاں پر بولی جانے والی زبانیں شینا اور گوجری ہیں۔ شاید ہی کوئی مقامی باشندہ ملے جو باریش نہ ہو۔
جمعے کے روز بازار اس طرح بند ہوتے ہیں کہ معالج بھی نہیں ملتے۔ اگر چلاس کے قریب آپ کی گاڑی خراب ہو گئی ہے اور وہ دن جمعے کا ہے تو پھر آپ کو اگلے دن تک انتظار کرنا ہوگا۔ گلگت اور سکردو کے لوگوں کے برعکس چلاس کے لوگ جھگڑالو اور چڑ چڑے ہیں۔ سنگلاخ چٹانوں جیسی کرخت مزاجی یہاں کی پہچان ہے۔ جرائم کی شرح کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گلگت اور سکردو کے دیگر اضلاع کی نسبت چلاس کی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد زیادہ اور نوعیت سخت ہے۔
چلاس کے قریبی علاقے داریل میں 2018 میں لڑکیوں کے 12 سکولوں کو دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ تباہ کیے جانے والے سکولوں میں ایک آرمی پبلک سکول بھی تھا۔ کئی ماہ تک بچیوں کی تعلیم بند رہی تھی اور کچھ والدین نے اپنی بیٹیوں کو سکولوں سے مستقل طور پر اٹھا لیا تھا۔
یہ شہر اپنی الگ سی شناخت کے باوجود پاکستان کی جنت نظیر وادیوں کا دروازہ ہے، اس لیے یہاں سے گزرنا تو پڑتا ہے۔