محمد سیف کی عمر 95 سال ہے۔ وہ آزادی کے وقت انڈیا سے کاروبار چھوڑ کر پاکستان آئے اور نئے سرے سے کاروبار کا آغاز کیا تھا لیکن آج انہیں یہ فیصلہ درست دکھائی نہیں دیتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان اور انڈیا ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ دونوں معاشی اعتبار سے تقریباً برابر تھے بلکہ آزادی کے ابتدائی سالوں میں پاکستانی معیشت انڈیا کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ بین الاقوامی حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث رہتا تھا کہ مستقبل میں کون سا شہر زیادہ جدید ہوگا؟ کراچی یا نیویارک، لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ انڈیا چاند پر پہنچ رہا ہے، وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور پاکستانی پاسپورٹ چوتھا بدترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے۔ صرف افغانستان، عراق اور شام کے پاسپورٹ پاکستان کی نسبت کمزور ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں آنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرنے ہوں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری نسلیں کاروبار کرنے کے لیے پاکستان کی بجائے انڈیا کی شہریت لینے کو ترجیح دیں۔‘
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور موجودہ ایکسپورٹرز میاں نعیم جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چند سال قبل پاکستان ٹیکسٹائل، چمڑے اور آلات جراحی کی ایکسپورٹ میں انڈیا سے بہت آگے تھا لیکن آج ہم انڈیا کا مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انڈیا کے مقابلے میں آنے کے لیے پاکستانی سالانہ ایکسپورٹ تقریباً 90 ارب ڈالر ہونی چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا نے آخری مرتبہ 1991 میں آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا۔ وہ بھی ایک سٹینڈ بائے ارینجمنٹ تھا، جو 1993 میں ختم ہوا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک اس نے آئی ایم ایف سے مدد نہیں مانگی جبکہ پاکستان مارچ 2024 میں اس پروگرام کے خاتمے کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف پروگرام میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کی ترقی کا وقت اس وقت شروع ہوا جب وہ آئی ایم ایف پروگرام سے نکلا اور اس مقام تک آتے ہوئے اسے تقریباً 30 سال لگے ہیں۔ اگر پاکستان اگلے پانچ سال بعد آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے اور انڈیا کی رفتار سے معاشی ترقی کے سفر کا آغاز کرتا ہے تو پاکستان کو انڈیا کے برابر آنے کے لیے کم از کم 40 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ہم اس قدر پیچھے رہ گئے ہیں کہ شاید دوڑ میں سے ہی نکل گئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اگر ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وسطی ایشیائی ممالک، ایران اور چین سے مقامی کرنسی میں تجارت کو ممکن بنائیں۔ امریکہ اور یورپ کی مارکیٹ انڈیا کے پاس ہے۔ وہاں مقابلہ کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ ’انڈیا میں بھی کرنسی ایکسچینج ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وہاں بھی ہنڈی حوالہ اور گرے مارکیٹ موجود ہے لیکن ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے کنٹرول میں نہیں ہیں جبکہ حکمرانوں نے پاکستان کی حالت یہ کر دی ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے بغیر ڈیفالٹ کر جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انڈین روپیہ انٹرنیشنل کرنسی بننے کی طرف گامزن ہے۔ انڈیا نے حال ہی میں متحدہ عرب امارت سے ڈالر کی بجائے انڈین روپے میں تجارت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ قطر اور دبئی میں بھی ڈالرز کی بجائے انڈین کرنسی میں خریدوفروخت ہو سکتی ہے، لیکن پاکستانی کرنسی کو افغانستان میں بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’آبادی کے تناسب سے اگر حساب لگایا جائے تو پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں آنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر آٹھ ارب سے بڑھا کر تقریباً 95 ارب ڈالرز تک لانا ہوں گے جو فی الحال ایک خواب ہے۔ گو کہ پاکستان کی جغرافیائی صورت حال انڈیا سے بہتر ہے۔ لیکن انڈیا کی ترقی کی بڑی وجہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور بین الاقومی سطح پر بہترین لابنگ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظفر پراچہ کے مطابق: ’ان کے سرکاری افسران اور وزرا معمولی گاڑیاں چلاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ڈپٹی کمشنر کو دو کروڑ کی گاڑی دی جاتی ہے۔ ہماری آمدن اٹھنی اور خرچہ روپیہ ہے۔ جب انڈیا معاشی بدحالی کا شکار ہوا تو اس نے اپنے اخراجات آمدن کے مطابق کم کر دیے تھے جبکہ پاکستان میں اشرافیہ کو دی جانے والی سبسڈی ہی تقریباً 17 ارب ڈالرز ہے، جو پاکستان کے ذخائر سے دو گنا زیادہ ہے۔‘
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور کے مطابق: ’انڈیا اور پاکستان کی معیشت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے امریکہ اور برطانیہ کی معیشت کا پاکستان سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ہم اپنے اخراجات کرنا کم نہیں چاہتے، معاشی پالیسیاں مستقل رہنے نہیں دیتے، سیاسی استحکام ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے جبکہ انڈیا کو ایسے کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہے۔‘
پاکستان سوفٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے چیئرمین زوہیب خان کہتے ہیں کہ ’پاکستان آئی ٹی سیکٹر میں انڈیا کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر سکتا ہے۔ 2019 سے 2022 تک پاکستان نے آئی ٹی سیکٹر میں 177 فیصد گروتھ دکھائی ہے۔ پچھلے ایک سال کے معاشی بحران کے باوجود آئی ٹی ایکسپورٹ اڑھائی ارب ڈالرز سے زیادہ ہیں لیکن انڈیا کی نسبت یہ کم ہیں۔ انڈیا دو سو ارب ڈالرز کی آئی ٹی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو انڈیا کے مقابلے میں آنے کے لیے پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹس تقریباً 33 ارب ڈالرز ہونی چاہییں، جو مشکل نہیں ہیں۔
بقول زوہیب خان: ’پاکستان کی تقریباً 12 کروڑ کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر انہیں آئی ٹی کے شعبے میں معیاری اور عالمی سطح کی ٹریننگ دی جائے تو پاکستان آئی ٹی سیکٹر میں انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فری لانسرز اور سافٹ ویئر ایکسپورٹرز کو اپنے کمائے ہوئے ڈالرز آسانی سے پاکستان لانے اور لے جانے کی اجازت دی جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سٹیٹ بینک کے مطابق تقریباً دو ارب 60 کروڑ ڈالرز آئی ٹی ایکسپورٹس سے حاصل ہوتے ہیں، میرے مطابق اصل آئی ٹی ایکسپورٹس پانچ ارب ڈالرز ہیں۔ آدھے سے زیادہ ڈالرز سافٹ وئیر ہاؤسز اور فری لانسرز بیرون ملک ہی رکھ لیتے ہیں کیونکہ انہیں انٹرنیشنل ادائیگیاں کرنا ہوتی ہیں۔ اگر وہ ڈالرز پاکستان لے آئیں تو بیرونی ادائیگیوں کے ڈالرز باہر بھیجنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘
زوہیب خان نے امید ظاہر کی کہ ’پاکستان نے بھی انڈیا کی طرز پر ون ونڈو سہولت متعارف کروائی ہے۔ اگر پالیسیوں کا تسلسل یونہی چلتا رہا تو امید ہے کہ چند سالوں میں پاکستان انڈیا سے بہتر پرفارم کر سکے گا۔‘
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔