جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا۔۔!
ہم نے ہمیشہ سے سنا ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور اکثر لوگوں نے اپنی زندگی میں اس قول کو سچ ہوتے ہوئے دیکھا بھی ہے۔
اسی طرح کے کئی جھوٹ جو گذشتہ کئی برس سے پاکستان کے بھولے عوام سے بولے گئے ہیں، ان کے پکڑے جانے کی داستان پوری دنیا نے دیکھی ہے۔
لیکن جس طرح سے گذشتہ ڈیڑھ سال میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے نوجوانوں کو جھوٹ در جھوٹ بول کر اپنے ہی ملک کا دشمن بنا دیا ہے، اس کی نظیر دنیا میں تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں ملتی۔
اب بالآخر ان کے تمام جھوٹ پے در پے دنیا کے سامنے آشکار ہو رہے ہیں اور عوام کے سامنے ان کی جھوٹی داستانوں کا ریکارڈ منظرعام پر آنے لگا ہے۔
گذشتہ سال جب انہیں اپنی حکومت جانے کا یقین ہو گیا تو انہوں نے اسی طرح کے ایک جھوٹ کا سہارا لیا اور اس جھوٹ کے لیے اور عوام سے ہمدریاں سمیٹنے کی خاطر انہوں نے قومی سلامتی تک پر کمپرومائز کرنے سے گریز نہیں کیا۔
انہوں نے جس طرح ہر عوامی جلسے میں ’سائفر سائفر‘ کر کے پاکستانیوں کو گمراہ کیا، اس طرح تو شاید کوئی دشمن بھی کسی کے ساتھ نہ کرتا ہو، لیکن کہتے ہیں کہ ہر اندھیری رات کے بعد صبح کا اجالا ہوتا ہے، اسی طرح عمران خان کے اس جھوٹ کی تاریکی کا ختم ہونا یقینی امر تھا۔
مجھ سمیت تقریباً ہر ذی شعور پاکستانی کو آغاز سے ہی عمران خان کے اس بیانیے کے جھوٹا ہونے کا یقین تھا کیونکہ وہ جس طرح سے انتہائی حساس قومی معمولات کو مذاق بنا کر عوام میں پیش کر رہے تھے، یقیناً ایسا کوئی محب الوطن پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
سائفر جو انتہائی حساس اور خفیہ ریاستی دستاویز ہوتا ہے، جو بیرون ملک سے آئے ہوئے سفارت کار اپنی اپنی ریاستوں کو بھیجتے ہیں اور جن کا براہ راست تعلق کسی بھی ملک کی قومی سلامتی سے ہوتا ہے، عمران خان نے اسے اپنے ذاتی و سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر کے قومی سلامتی کو نہ صرف خطرے میں ڈالا بلکہ اس کے ذریعے انہوں نے امریکہ سمیت کئی ممالک سے پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے میں بھی معاونت فراہم کی۔
یہی نہیں ان کے رویوں کی وجہ سے پاکستان میں جس طرح سے نفرت کی فضا بڑھی، وہ سب کے سامنے ہے۔
صرف اپنی ذات کی خاطر انہوں نے پاکستانیوں کو اپنے ہی اداروں اور لوگوں کے سامنے لا کھڑا کیا، جس کا نتیجہ نو مئی کو ہونے والے ہولناک واقعات کی صورت میں پیش آیا۔
خیر ان کی یہ تمام کوششیں اس وقت رائیگاں ہو گئیں، جب ان کے نہایت قریبی ساتھی، جو ان کے دورِ حکومت میں اہم فیصلوں میں معاون ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے سب سے قریبی مشیر اور دوستوں میں شمار ہوتے ہیں، اور جنہیں خان صاحب نے اپنی سینیئر ترین قیادت اور دوستوں پر ترجیح دی تھی، یعنی ان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے ان کے تمام تر جھوٹ اور ذاتی مفاد پر مبنی بیانات کو نہ صرف سرے سے ہی جھٹلا دیا بلکہ کئی اہم انکشافات بھی کر دیے۔
اعظم خان جو گذشتہ مہینے منظر عام سے غائب ہوگئے تھے، اب نہ صرف واپس آ گئے ہیں بلکہ انہوں نے اعتراف جرم کر کے اپنے بیانات بھی ریکارڈ کروائے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سب سے پہلے انہوں نے سائفر سازش کیس کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ کر عمران خان کے بیانیے کو نہ صرف سرعام جھوٹا ثابت کر دیا بلکہ اپنے بیان میں انہوں نے کئی بڑے اور اہم انکشافات بھی کیے, جن سے کئی اہم اور بڑے سوالات جنم لیتے ہیں۔
اعظم خان کے بیان کے مطابق عمران خان نے امریکہ سے عمومی روٹین کے مطابق آئے سائفر کو اپنے سیاسی و ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔
ان کے مطابق سابق وزیراعظم نے اہم سفارتی دستاویز نہ صرف ان سے لیں بلکہ انہوں نے اس کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ بنا کر عوام کو گمراہ کیا۔
اعظم خان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ عمران خان نے ان سے وہ سائفر لے لیا لیکن بار بار طلب کرنے کے باوجود واپس نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ ان سے سائفر گم ہوگیا ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک سابق وزیراعظم خفیہ سرکاری دستاویز کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے کیسے استعمال کرسکتا ہے؟ کیا یہ وزیراعظم کے حلف کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سائفر عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے پاس رکھ لیا تو سائفر اب کہاں ہے؟ اور اگر انہوں نے وہ گم کردیا، تو کیا اس عمل کے باعث ان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا نفاذ ہوسکتا ہے؟
تیسرا اہم سوال یہ بھی بنتا ہے کہ اس سارے عمل میں ان کے ساتھ اور کون کون شریک تھا اور ان کا اس ساری کہانی میں کیا کردار رہا ہے؟
اعظم خان کے بیان سے جس طرح کے انکشافات منظرعام پر آئے ان سے یہی واضح ہوچکا ہے کہ سابق وزیراعظم نے نہ صرف اس سارے عمل میں جھوٹ کا سہارا لیا بلکہ اس دوران انہوں نے حساس قومی معلومات کو استعمال کر کے ملک سے مبینہ غداری کی۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ انہی الزامات پر حکومت ان پر مقدمات درج کرے گی کیونکہ انہوں نے جو کرنا تھا کر لیا، اب ریاست کی باری ہے۔ وہ اصل سازش کو بے نقاب کر کے ملزمان کو منطقی انجام تک پہنچائے وگرنہ یہی سلسلہ اگر چلتا رہا تو خدانخواستہ ملک دشمن اس منظرنامے کو مملکت خداداد کے خلاف استعمال کریں گے۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ ان انکشافات کے بعد حکومت کا ایکشن کب ہو گا، ان کے خلاف کیا مقدمات درج ہوں گے اور کیا عمران خان دوبارہ گرفتار ہوں گے؟ کیونکہ لاہور ہائی کورٹ سے سائفر سے متعلق تحقیقات کے خلاف سٹے آرڈر ختم ہونے کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے نے دوبارہ تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
اس سلسلے میں انہوں عمران خان سمیت اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کو بھی طلب کر لیا ہے، جو ان کے ساتھ وفاقی وزیر رہے ہیں۔
اب یہ معاملہ کہاں جائے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن جو صورت حال چل رہی ہے، اس سے یہی امید ہے کہ عمران خان اب تقریباً سیاسی طور پر ختم ہو چکے ہیں۔
ایک طرف ان کی پارٹی میں جاری تقسیم جس انداز سے ہوئی، اس کے ساتھ ان کے اہم رہنماؤں کی جانب سے نئی سیاسی تحریک اور خیبرپختونخوا، جو ان کی ہمیشہ سے طاقت کا محور رہی ہے، میں بڑا شگاف ۔۔۔ یہ ساری چیزیں ان کے سیاسی اختتام کے لیے کافی ہیں۔
اس علاوہ عمران خان کے لیے ایک اور چیلنج ان کے خلاف جاری مقدمات ہیں، جہاں مستقل طور ضمانتیں ملنے کے باوجود ان کا بچنا ممکن نظر نہیں آ رہا کیونکہ یکے بعد دیگرے فیصلے ان کے خلاف آ رہے ہیں، جس کی ایک اور مثال اعظم خان ہی کی نیب میں ہونے والی پیشی ہے۔
اعظم خان نے گذشتہ دن 190 ملین پاؤنڈ سکینڈل کے سلسلے میں نیب میں بھی اپنا بیان ریکارڈ کروایا ہے، ذرائع کے مطابق اس بیان سے بھی اہم انکشافات نکلنے کا امکان ہے۔
ان ساری چیزوں سے یہ بات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہیں کہ عمران خان اب اپنے دام میں پھنس چکے ہیں اور اس صورت حال سے آسانی سے بچ کر نکل جانے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
الیکشن بھی قریب ہیں، ان کیسز کے چلنے سے ان پر نااہلی کی تلوار بھی پہلے سے زیادہ بری طرح لٹک رہی ہے، اب آنے والا وقت ہی بہتر بتائے گا کہ ان کا انجام کیا ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔