بہاولپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں یونیورسٹی سے متعلق حالیہ سکینڈل کو ’جھوٹ کا پلندہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں پہلے ہی سے دو انکوائری کمیٹیاں کام کر رہی ہیں اور ان کے بقول جلد ہی اصل حقائق سامنے آ جائیں گے۔
وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ ’ادارے کی طالبات بھی سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات میں من گھڑت سکینڈل کی تردید کر رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یونیورسٹی میں 65 ہزار طالب علم ہیں جن میں سے 27 ہزار طالبات ہیں۔ یونیورسٹی کے ماحول پر انھیں اعتبار ہے تو اس کی وجہ سے طالبات یہاں پڑھنے آ رہی ہیں۔‘
پاکستان کی ایک بڑی سرکاری یونیورسٹی کے بارے میں گذشتہ ہفتے سامنے آنے والے ’ڈرگ اور فحش ویڈیوز‘ سکینڈل سے متعلق حقائق جاننے کے لیے پیر کو پنجاب حکومت اور پولیس نے دو الگ الگ تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔
پولیس نے گذشتہ ہفتے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سکیورٹی افسر کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے مبینہ طور پر منشیات کے علاوہ دو موبائل فون برآمد کیے تھے جن میں پولیس کے مطابق طالب علموں اور یونیورسٹی کے عملے سے متعلق قابل اعتراض ویڈیوز موجود تھیں۔
پنجاب حکومت کے ایک بیان میں کہا گیا کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں منشیات کی خرید و فروخت کے واقعہ کی انکوائری کے لیے پیر کو تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ’کمیٹی میں سیکریٹری معدنیات بابر امان بابر، ڈی آئی جی امین بخاری اور ڈی آئی جی راجہ فیصل شامل ہیں‘ جو واقعہ کی ہر پہلو سے تحقیقات کرے گی۔
’کمیٹی واقعہ میں ملوث افراد کا تعین کرے گی اور اپنی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کرے گی۔‘ جب کہ پنجاب پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’ڈرگ اور نازیبا ویڈیوز سکینڈل‘ کی انکوائری کے لیے بہاولپور کے ریجنل پولیس آفیسر رائے بابر سعید نے 5 رکنی سپیشل تحقیقاتی ٹیم بنا دی۔
اس ٹیم میں ایس پی انویسٹیگیشن، ڈی ایس پی کرائم، ڈی ایس پی لیگل اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او اور تفتیشی افسر شامل ہیں۔ دوسری جانب بہاولپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب نے اس معاملے سے متعلق حقائق جاننے کے لیے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے رکھی ہے۔
تاہم 21 جولائی کو یونیورسٹی کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ایک واقعے کو بنیاد بنا کر پورے ادارے کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔
’منفی اور غیر ذمہ دارنہ مہم کا مقصد یونیورسٹی میں جاری تعلیمی سرگرمیوں اور ترقی کے عمل کو روکنا اور استائذہ اور طلبا و طالبات میں سراسیمگی پھیلانا ہے۔‘
— The Islamia University of Bahawalpur (@theiubwp) July 23, 2023
وائس چانسلر نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ ’یونیورسٹی میں تدریسی اور غیر تدریسی شعبہ جات کے سربراہان کے خون کے نمونوں کا ٹیسٹ لیا جائے گا تاکہ ملوث افراد کو سامنے لا کر سزا دی جائے۔‘یونیورسٹی کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ ’اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور فیملی پانچ ہزار ملازمین اور 65 ہزار طلبا و طالبات پر مشتمل ہے اور ملک کا عظیم علمی اثاثہ ہے۔‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے متعلق حالیہ سکینڈل کا معاملہ پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت میں بھی زیر بحث آیا۔
بہاولپور یونیورسٹی کے انتظامی معاملات سے متعلق قائمہ کمیٹی کا اجلاس پہلے سے طے تھا جس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کو بھی پیش ہونے کا کہا گیا تھا لیکن وہ اجلاس میں نہیں پہنچے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سید سمیع الحسن کی صدارت میں قائمہ کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر کا اجلاس میں نہ آنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔
قائمہ کمیٹی نے وائس چانسلر کے وارنٹ جاری کرنے کی ہدایت کر دی جب کہ اس معاملے پر ڈی پی او بہالپور کو قائمہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں طلب کیا گیا ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ اعلی تعلیم کے اداروں میں اس قسم کے واقعات کسی صورت برداشت نہیں کیے جا سکتے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اعلی تعلیم کے انتظامی ادارے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیرمین کو ہدایت کی کہ وہ سکینڈل سے جڑے تمام معاملے کی انکوائری کی نگرانی کریں۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا موقف
بہاولپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ یونیورسٹی سے متعلق سامنے آنے والی حالیہ خبروں کی انکوائری اور دیگر معاملات میں مصروفیت کی سبب قائمہ کمیٹی میں پیش نہیں ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ وہ یونیورسٹی سے متعلق سامنے آنے والی حالیہ خبروں کی انکوائری اور دیگر معاملات میں مصروفیت کی سبب قائمہ کمیٹی میں پیش نہیں ہوئے۔
انھوں نے حالیہ سکینڈل کو ’جھوٹ کا پلندہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں پہلے ہی سے دو انکوائری کمیٹیاں کام کر رہی ہیں اور ان کے بقول جلد ہی اصل حقائق سامنے آ جائیں گے۔
ڈاکٹر اطہر نے کہا کہ وہ چار سال سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اور ان کے عہدے کی مدت منگل کو ختم ہو رہی ہے۔ ’یہ میری اور ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔‘
وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ ’ادارے کی طالبات بھی سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات میں من گھڑت سکینڈل کی تردید کر رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یونیورسٹی میں 65 ہزار طالب علم ہیں جن میں سے 27 ہزار طالبات ہیں۔ یونیورسٹی کے ماحول پر انھیں اعتبار ہے تو اس کی وجہ سے طالبات یہاں پڑھنے آ رہی ہیں۔‘