امریکہ نے افریقی ملک نائجر کے معزول صدر محمد بازوم کی فوری رہائی اور ملک میں جمہوری نظام کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ہفتے کو آسٹریلیا میں میڈیا سے خطاب میں کہا کہ وہ نائجر میں ہونے والے اقدامات کی مذمت کرتے اور صدر بازوم کی فوری رہائی اور اس ملک میں جمہوری نظام کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نائجر کے ساتھ امریکہ اقتصادی اور سکیورٹی اہم شراکت داری ہے، جس کا انحصار جمہوری طرز حکمرانی اور آئینی نظم کے تسلسل پر ہے۔
نائجر کے صدر محمد بازوم گذشتہ تین دن سے زیر حراست میں ہیں اور ایک فوجی جنرل نے خود کو ملک کا سربراہ قرار دے دیا ہے۔
افریقہ کے نیم بنجر ساحل میں واقع یہ ملک باغیوں کے خلاف واشنگٹن کی لڑائی میں کلیدی شراکت دار ہے۔ امریکی فوجی اہلکار عسکریت پسند گروپوں سے لڑنے کے لیے مقامی فورسز کو تربیت دے رہے ہیں۔
غیر ملکی امداد سے متعلق امریکی قانون کسی بھی ایسے ملک کو زیادہ تر امداد کی ممانعت کرتا ہے جہاں حکومت کے منتخب سربراہ کو بغاوت یا حکم نامے کے ذریعے معزول کیا گیا ہو، اگرسیکرٹری آف سٹیٹ اس بات کا تعین کرے کہ امداد فراہم کرنا امریکہ کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔
نائجر میں حکومت مخالف گروہ نے آرمی جنرل کو بطور ملک کا سربراہ اعلان کرتے ہوئے غیر ملکی فوجی مداخلت کے خلاف تنبیہ بھی جاری کی ہے۔
جنرل عبدالرحمٰن، جو 2011 سے صدارتی گارڈ کے سربراہ تھے، نے ٹی وی پر خطاب میں اعلان کیا کہ وہ ’صدر قومی کونسل برائے تحفظ وطن‘ ہوں گے۔
اے ایف پی کے مطابق جنرل عبدالرحمٰن نے بغاوت کی وجہ ملک میں ’امن و امان کی بگڑتی صورت حال‘ کو قرار دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خطاب کے بعد باغیوں کی جانب سے بیان بھی جاری کیا گیا جس میں ’کسی غیر ملکی فوجی مداخلت کی صورت میں نتائج‘ کی تنبیہ کی گئی تھی۔
نائجر کے صدر محمد بازوم گذشتہ تین دن سے زیر حراست میں ہیں اور فرانس، جس کا ایک وقت میں نائجر پر قبضہ تھا، نے بازوم کو ملک کا ’واحد صدر‘ قرار دیا ہے اور ملک میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
فرانس کے 15 سو فوجی بھی نائجر میں تعینات ہیں۔
یورپی یونین نے بھی نائجر کو امداد بند کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ یہ ’استحکام اور جمہوریت پر شدید حملہ‘ ہے۔
بازوم اور ان کے خاندان کو بدھ (26 جولائی) کی صبح ان کے صدارتی محل تک محدود کر دیا گیا تھا۔
ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی صحت اچھی ہے اور وہ دیگر ممالک کے سربراہان سے فون پر رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔