لیبیا میں تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ سکیورٹی حکام نے ملک کے مشرقی علاقے میں واقع گوداموں سے کم از کم 385 پاکستانیوں کو بازیاب کروا لیا ہے۔
لیبیا میں تارکین وطن کی مدد کرنے والی تنظیم الابرین کے مطابق پاکستانی شہریوں کو پیر کی صبح مشرقی لیبیا کے شہر طبرق سے تقریبا پانچ میل (آٹھ کلومیٹر) جنوب میں الخویر کے علاقے سے سمگلروں کے گوداموں سے چھڑوایا گیا۔
اس گروپ نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’ان تارکین وطن میں بچے بھی شامل ہیں اور ان سب کو قریبی پولیس ہیڈ کوارٹر منتقل کر دیا گیا ہے۔‘
الابرین سے تعلق رکھنے والی ایک سرگرم کارکن اسریوا صلاح نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’پاکستانی تارکین وطن یورپ جانے کے ارادے سے لیبیا پہنچے تھے لیکن سمگلروں نے انہیں حراست میں لے لیا اور ان کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کیا۔‘
الابرین کے فیس بک پیج پر شائع کی گئی متعدد تصاویر میں مبینہ طور پر آزاد کرائے گئے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کو ایک گودام کے باہر بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
لیبیا افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ پوائنٹ ہے۔
2011 میں نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد یہ ملک افراتفری کا شکار ہو گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس ملک کے مشرقی اور مغربی لیبیا میں متحارب گروہوں کی حکومت رہی ہے، جن میں سے ہر ایک کو ملیشیا اور غیر ملکی حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔
انسانی سمگلروں نے ایک دہائی سے جاری اس عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مصر، الجزائر اور سوڈان سمیت چھ ممالک سے تارکین وطن کی سمگلنگ کا کام شروع کر رکھا ہے۔
انسانی سمگلر یورپ میں بہتر زندگی کے متلاشی تارکین وطن کو وسطی بحیرہ روم کے راستے خطرناک سفر کے لیے ربڑ کی کشتیوں اور دیگر بحری جہازوں میں بھر کر روانہ کر دیتے ہیں۔
جون میں لیبیا سے 350 پاکستانیوں سمیت تقریبا 700 تارکین وطن کو لے کر روانہ ہونے والا ایک بحری جہاز یونان کے ساحل کے قریب ڈوب گیا تھا۔ جہاز پر سوار صرف 104 افراد کوبچا لیا گیا تھا جن میں 12 پاکستانی بھی شامل تھے۔
پاکستانی حکام کے مطابق معاشی مشکلات کے باعث پاکستانی نوجوان ملک چھوڑ کر یورپ جانے کے لیے خطرناک راستوں اور پرخطر سفر کا انتخاب کر رہے ہیں۔