کشتی حادثہ، پاکستانیوں کی میتوں کی واپسی کا عمل شروع: سفارت خانہ

ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کے مطابق کشتی حادثے میں مرنے والے پاکستانی شہریوں میں سے 15 کی شناخت کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور میتیوں کی واپسی 25 جولائی تک جاری رہے گی۔

دی ہیلینیک کوسٹ گارڈ کی جانب سے 14 جون 2023 کو جاری کی گئی اس تصویر میں یونان کے پیلوپونیس ساحل کے قریب ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی کا ایک ریسکیو ہیلی کاپٹر سے لیا گیا فضائی منظر دکھایا گیا ہے، جسے حادثہ پیش آنے کے نتیجے میں درجنوں اموات ہوئی ہیں اور سینکڑوں افراد لاپتہ ہیں (تصویر: دی ہیلینیک کوسٹ گارڈ/ ہینڈ آؤٹ/ روئٹرز)

یونان میں واقع پاکستانی سفارت خانے نے بیان میں کہا ہے کہ جون میں یونان کے قریب تارکین وطن کی ڈوبنے والی کشتی میں مرنے والے پاکستانیوں کی میتوں کی وطن واپسی کا عمل جمعرات کو شروع ہو رہا ہے جو 25 جولائی تک جاری رہے گا۔

پاکستانی سفارت خانے نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ ’کشتی حادثے میں مرنے والے پاکستانی شہریوں میں سے 15 کی شناخت کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’تمام قانونی اور طبی ضوابط مکمل ہونے کے بعد میتوں کی پاکستان منتقلی کا عمل مرحلہ وار شروع ہو چکا ہے اور یہ تمام عمل 25 جولائی کو مکمل ہو جائے گا۔‘

پاکستانی سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا کہ ’اس سلسلے میں میتیں 20 جولائی سے پاکستان پہنچنا شروع ہو جائیں گی، جس کے تمام اخراجات حکومت پاکستان برداشت کر رہی ہے۔‘

بیان میں واضح کیا کہ حکومت لواحقین سے مسلسل رابطے میں ہے اور ’پاکستان پہنچنے پر میتوں کو گھر تک پہنچانے کے لیے ایمبولینس کی سہولت میسر کر دی گئی ہے۔‘

پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے گذشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’جن افراد کی شناخت ہو چکی ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے اور ان کا تعلق گجرات، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین ، راولپنڈی اور وہاڑی کے علاقوں سے ہے جب کہ ایک کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور سے تھا۔‘

شناخت ہونے والوں میں سے سب سے زیادہ (چھ) کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے اور چار کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے جبکہ شیخوپورہ، راولپنڈی، وہاڑی اور منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے ایک ایک پاکستانی شہری کی لاش کی شناخت ہو سکی ہے۔

گذشتہ ماہ 14 جون کو لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی بین الاقوامی پانیوں میں یونان کے ساحل کے قریب حادثے کا شکار ہو کر ڈوب گئی تھی، جس میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق 350 پاکستانی شہری سوار تھے۔

جون کے اواخر میں قومی اسمبلی میں ایک بیان میں وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ یونان کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی کشتی پر کم از کم 350 پاکستانی سوار تھے۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ 400 افراد کی گنجائش والی ماہی گیری کی کشتی پر 700 سے زیادہ لوگ سوار تھے۔

انہوں بتایا تھا کہا کہ مجموعی طور پر 281 پاکستانی خاندانوں نے مدد کے لیے حکومت سے رابطہ کیا تھا۔

20 سے 30 میٹر لمبی ماہی گیری کی کشتی پر مصر، شام اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کے سینکڑوں افراد سوار تھے  جو 14 جون کو جنوبی یونان کے قصبے پائلوس سے 50 میل دور بحیرہ روم میں ڈوب گئی تھی۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق حالیہ مہینوں میں پاکستان میں معاشی مشکلات کے باعث لوگ اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کی حکومت نے کہا ہے کہ کئی انسانی سمگلروں اور ان کے ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جنہوں نے حکام کو بتایا کہ ان کا سرغنہ لیبیا میں موجود ہے۔

پاکستانی حکام نے بتایا کہ ان انسانی سمگلروں نے دبئی، مصر اور لیبیا تک قانونی سفر کے بعد سمندری راستے سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے افراد سے فی کس تقریباً آٹھ ہزار ڈالر وصول کیے تھے۔

رانا ثنا اللہ کہہ چکے ہیں انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کی شناخت اور گرفتاری کے لیے اعلیٰ سطحی انکوائری جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ایسے معاملات میں خامیوں کو دور کرنے اور سزا کو یقینی بنانے کے لیے قانون میں ترامیم کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔‘

وفاقی وزیر داخلہ نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پانچ سال سے زیادہ عرصے سے کسی ایک بھی انسانی سمگلر کو سزا نہیں دی گئی۔‘

یونان میں پیش آنے والے اس کشتی کے حادثے کے بعد وزیراعظم کے حکم پر پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اس معاملے کی تحقیقات میں شروع کر رکھی ہیں اور انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کی گرفتاری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ایف آئی اے نے حال ہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو آگاہ کیا کہ یونان کشتی حادثے میں ملوث 86 میں سے 54 انسانی سمگلرز کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان