ایک غیر سرکاری تنظیم نے بدھ کو بتایا کہ ایرانی حکومت نے 48 گھنٹوں کے دوران بلوچ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے 11 افراد کو منشیات کے الزام میں پھانسی دے دی۔
فرانسیسی خبر رساں کے مطابق ناروے میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) نے کہا کہ نو ایرانی بلوچوں اور پڑوسی ملک افغانستان کے دو بلوچ شہریوں کو اتوار اور منگل کی صبح پھانسی دی گئی۔
آئی ایچ آر نے مزید کہا کہ انہوں نے جولائی میں ایران بھر میں کل 61 پھانسیوں کا ریکارڈ حاصل کیا جب کہ ایران میں سزائے موت میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے جہاں صرف رواں سال ملک میں اب تک 423 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔
مظاہرین نے ایران پر الزام لگایا کہ وہ 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد گذشتہ ستمبر شروع ہونے والی احتجاجی تحریک میں شامل مظاہرین کے خلاف سزائے موت کو پوری آبادی میں خوف پھیلانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
آئی ایچ آر نے کہا کہ بلوچ اقلیتی برادری ایران کی کل آبادی کا صرف دو سے چھ فیصد ہیں لیکن 2022 سے اس برادری کے ارکان کو دی گئی پھانسیاں تمام سزاؤں کا ایک تہائی حصہ تھیں۔
گروپ نے کہا کہ 30 جولائی سے یکم اگست کے درمیان صوبہ سیستان بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان کی مرکزی جیل میں منشیات کے الزام میں آٹھ بلوچ افراد کو پھانسی دی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح کے الزامات کے تحت 31 جولائی کو مشرقی صوبے خراسان کے شہر بیرجند کی ایک جیل میں ایک اور بلوچ شخص کو پھانسی دی گئی۔
گروپ نے کہا کہ بلوچ نسل کے دو افغان شہریوں 30 سالہ محمد ارباب اور 32 سالہ اسد اللہ امینی کو 30 اور 31 جولائی کو سیستان بلوچستان کی زابل جیل میں خفیہ طور پر پھانسی دے دی گئی۔
انسداد منشیات کے قانون میں ترامیم کے بعد ایران میں منشیات سے متعلق الزامات پر 2018 میں پھانسیوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر کمی آئی لیکن 2021 کے بعد سے اس میں دوبارہ اضافہ ہوا ہے۔
آئی ایچ آر نے کہا کہ 2022 میں منشیات کے الزامات میں سزائے موت پانے والے 256 افراد میں سے تقریباً نصف بلوچ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
تہران میں مہسا امینی کی موت کے بعد زاہدان میں بھی مظاہرے ہوئے جو طویل عرصے سے بلوچ اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف عوام کے غصے کی عکاس تھے۔ اس خطے میں ایک پولیس افسر کی جانب سے ایک نوعمر بلوچ لڑکی کے مبینہ ریپ نے جلتی پر تلی کا کام کیا اور مظاہروں میں شدت آ گئی۔
انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے ایران کے اس پسماندہ ترین خطے میں سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا سزائے موت پر عمل درآمد کرنے والا ملک ہے جس کے بارے میں کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔